بلوچستان کی سیاست کے در و دیوار – کاظم ذگر بلوچ

331

بلوچستان کی سیاست کے در و دیوار

تحریر: کاظم ذگر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

بلوچستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو سیاست علم تعیلم کی آبیاری سے پہلے بلوچ معاشرہ سماجی و قبائلی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کا شکار رہی ہے ؛ جس کا ذکر ہمیں رند و لاشار کے آپسی ناچاقیوں کی صورت میں نظر آتا ہے کہ ایک مشترک مقام پر موجود ایک قوم آپس کی نا اتفاقی سے بکھر گئی اور یوں ان کی آبادی سندھ پنجاب اور دہلی قادیان تک پھیل گئی۔
وہ ایک ایسا دور تھا جہاں رسل و رسائل علم کے وسائل محدود تھے، بلوچستان میں سیاسی و تعلیمی بنیادوں کی میخیں نواب یوسف عزیز مگسی نے مضبوطی سے گاڑھ دئیے تھے مگر 1935 کے کوئٹہ کے زلزے میں وہ بہشت کو سدھار گئے۔
نواب یوسف عزیز مگسی کی سیاسی و صحافتی کشاورزی نے بلوچ سماج کو ایک نئی جہت و جستجو دی اور ان میں ایک نئی لہر پیدا کی کہ ایک قوم ایک وطن کے لوگ کیوں گھٹن زدہ ہیں اور انہوں نے آل بلوچ کانفرنس منعقد کرکے ایک پوری قوم کو سیاسی بنیادوں پر جگانے کی سہی سی کوشش کی جو بارآوار ثابت ہوئی اور بعد میں یہ سیاسی عٙلم میر غوث بخش بیزنجو ؛ سردار خیر بخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل ؛ محمد حُسین عنقا؛ گل خان نصیر نے تھام لی اور ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بلوچ قوم کو بلوچستان کے نام سے ایک نئی پہچان دی، جو آمرانہ طرز حکومت میں سلب ہوچکی تھی اور جب بلوچستان میں الیکشن ہوئے تو بلوچ پشتون اتحاد پر مبنی جماعت نیپ نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریت رائے سے الیکشن جیت لیا اور سردار عطاء اللہ خان مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ مگر قلیل مدت نو مہینے بعد جمہوری حکمران نے بلوچستان حکومت برطرف کردیا اور بلوچستان میں ایک نئے آپریشن کا آغاز ہوا کئی بستیاں جلائی گئیں، کئی لوگ مارے گئے اور سردار عطاء اللہ مینگل کے بیٹے اسد مینگل اغواء کرکے شہید کردیا گیا جن کی لاش کا آج تک پتہ نہیں چلا اور بلوچ قیادت نے جیلیں اور پیشیاں بھگتیں اور غداری کے مقدمات درج ہوئے ؛ ضیاء دور میں بلوچ قیادت جلاوطن رہی سردار عطاء اللہ خان مینگل لندن چلے گئے جبکہ سردار خیر بخش مری اپنے قبیل کے ہمراہ افغانستان چلے گئے۔
اس دوران بلوچستان کی سیاسی قیادت یا تو جیلوں میں تھی یا روپوش تھے اور کئی لوگ مارے جاچکے تھےاور سیاسی طور پر ایک خلاء کا سماں تھا تو اس دوران بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اس امر کی ضرورت محسوس کی بلوچستان کے نوجوانوں کو سیاسی؛ قومی و تعلیمی بیگانگی سے بچانے کے لیے نوجوانوں کو آگے آنا چاہیے تو اس دور میں ایک ترقی پسند نوجوان کامریڈ فدا بلوچ نے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کی بنیاد رکھی جو جلد ہی نہ صرف مکران بلکہ پورے بلوچستان میں ایک مقبول سیاسی جماعت کے طور پر ابھرنے لگا اور ضیائی مارشل لاء کے دور میں اس جماعت نے بھرپور جدوجہد کی اور اس دوران یہ کمٹڈ نوجوان سازشی عناصر کے نظروں میں آگیا جنہیں اس کے اسٹیشنری کے دکان میں گولیوں سے چھلنی کرکے شہید کیا گیا۔
یوں بلوچستان اور نوجوانوں کو ایک پروگریسو سیاسی رہنما سے محروم کردیا گیا اس کے بعد بی این وائی ایم کی قیادت ڈاکٹر حئی بلوچ؛ ڈاکٹر مالک بلوچ نے پارٹی کا نام تبدیل کرکے بلوچستان نیشنل موومنٹ رکھ دیا اور ضیاء مارشل لاء کے بعد جب انتخابات ہوئے تو بلوچستان کی پارلیمنٹ میں متوسط طبقے کا سلوگن لیکر سیاست کرنے والی جماعت موثر قوت کے سامنے ابھر کر سامنے آگئی اور یوں سرداروں نوابوں جاگیرداروں زرداروں کی موجودگی میں عام نوجوان بلوچستان اسمبلی میں براجمان ہوگئے اور یوں پارلیمانی سیاست کا دروازہ یوتھ اور نوجوانوں کے سامنے آگیا۔
اس سارے عمل کے دوران بی این ایم دوحصوں میں بٹ گئی اور سردار اختر جان مینگل نے اپنی نئی جماعت بی این ایم مینگل اور بعد میں کونسل سیشن کے ذریعے بلوچستان نیشنل پارٹی کا نام دیا اور سابق وزیر اعلیٰ سردار ثناء اللہ زہری؛ حاصل بزنجو بی این پی کا حصہ بن گئے اور 1996 کے انتخابات میں سردار آختر جان مینگل وزیر اعلیٰ بلوچستان بن گئے اور بالا آخر میاں نواز شریف نے بلوچستان حکومت توڑ دی جس کے بعد جنرل مشرف نے 1999 میں اقتدار کی کرسی سنبھال لی اور اس کے اثرات بلوچستان کی سیاست پر بھی پڑے اور 2002 کے الیکشن میں بلوچستان میں ق لیگ کی حکومت بنائی گئی ؛ اور بلوچ قوم پرستوں کو حکومت بنانے سے روکا گیا اور بلوچستان میں باقاعدہ سیاسی ورکرز اور سیاسی ماحول کی بیخ کنی کا کام شروع کیا گیا اور اگست 2006 کو ایک بوڑھے کمزور نحیف جس کے پاوں میں کینسر بھی تھا ایک اشارے پر میزائل حملے میں شہید کیا گیا جس کے ردعمل میں بی این پی کے سرابراہ اور ان کی جماعت کے ایم پی ایز نے صوبائی اسمبلی جبکہ سینیٹر ثناء اللہ بلوچ نے سینیٹ اور میر روف مینگل نے بطور ایم این اے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا وہ اسمبلی جس کی میمبر شپ کے لیے کئی لوگ کئی سالوں تک پالش کرکے بھی نہیں پہنچ پاتے، جس کے ردعمل میں مرکزی مشرف سرکار نے بی این پی اور سردار آختر جان مینگل پر یزیدی مظالم ڈھائے ان کے ورکر شہید کر دِئیے گئے زندانوں میں ڈالے گئے اور سردار آختر جان مینگل کو حب چوکی میں نظر بند کیا گیا۔
اس کے بعد ہونے والے الیکشن میں بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا جس کے نتیجے میں غیر معروف لوگ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبر بن کر وزیر گزیر مشیر بن گئے ؛ اور یوں پیپلز پارٹی کی حکومت بڑے آب و تاب اور اپوزیشن کے بغیر بلوچستان اسمبلی میں چھائی رہی اور پی پی پی اور جمعیت نے بڑے اچھے انداز میں اپنی اور بلوچستان کے عوام کی خدمت کی؛
جبکہ 2013 کے الیکشن میں قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی؛ ن لیگ ؛ پی کے میپ واضح میڈیٹ کے ساتھ آئیں اور بلوچستان کے حالات کے پیشِ نظر ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنادیا گیا اور یوں مخلوط حکومت نیشنل پارٹی؛ بی این پی اور پی کے میپ کے حصے میں آئی اور بلوچستان کے دو بڑی جماعتیں بی این پی اور جمعیت اپوزیشن کا حصہ بن گئے اور ڈھائی سال کے بعد ن لیگ کی طرف سے سردار ثناء اللہ زہری وزیر اعلیٰ بلوچستان بنادئیے گئے جبکہ نیشنل پارٹی اور پی کے میپ ان کی کابینہ کے شراکت دار رہے اور یوں بلوچستان حکومت بڑے آرام سے چلتی رہی۔
کہ اس دوران عالمی سطح پر ایک بہت بڑے مالیاتی اسکینڈل کا ظہور ظاہر ہوا جس نے ن لیگ مخالف جماعت پی ٹی آئی کو توانائی بخشی کیونکہ پانامہ لیک سے پہلے پی ٹی آئی کے پاس اس طرح کا کوئی ایشو نہیں تھا جا پر سیاسی میچ کھیلا جاسکے اور ن لیگ کی حکومت سے کئی لوگ درونِ خانہ خائف تھے ان کو موقع مل گیا ن لیگ سے حساب برابر کرنے کا یوں پی ٹی آئی ان معاملات کو کورٹ تک لے گئی اور فیصلہ نواز شریف کے خلاف آگیا اور وہ نااہل ہوگئے اس فیصلے کا اثر پوری ن لیگ پر ہوا اور یوں سینیٹ الیکشن بھی چند فرلانگ کے فاصلے پر تھیں اور ن لیگ جق ہمیشہ ووٹ کو عزت دو اور جمہور کی طاقت کا پرچارک کررہی تھی ان کی اس طاقت کو توڑنے کے لیے توپوں لا رُخ بلوچستان اسمبلی کی جانب رکھا گیا اور بلوچستان میں ہر وقت خدمت پر حاضر ق لیگ اور ن لیگ جس کے ایم پی ایز جو روز اول سے غیر نظریاتی رہے ہیں اور آزاد حیثیت سے جیت کر آئے ہیں تو انہوں نے آصف علی زرداری اور راز داروں سے ملکر بلوچستان حکومت کی پینسٹھ ارکان کے لشکر پر حملے کرکے کئیوں کو فتح کرلیا اور کئ غازی بنے جبکہ بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کے کارکن بھی اپنی جماعت کو دغا دے گئے مگر اکثریت اپنی جماعت کے فیصلوں اور اپنے نظریات پر ڈٹے رہے اور یوں جمعیت اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی مدد سے جو یہ دو جماعتیں بیزار آچکی تھیں آصف زرداری کی مشاورت سے بلوچستان حکومت ختم کردی گئی اور یوں پانچ ایم پی اے رکھنے والی جماعت ق لیگ کے قدوس بیزنجو کو وزارتِ اعلیٰ کی گدی سونپ دی گئی وہی قدوس بزنجو جسے سابق وزہر اعلیٰ سردار ثناء اللہ زہری نے ڈپٹی اسپیکر شپ سے فارغ کیا تھا۔
قدوس بیزنجو پی پی پی کے کُو چیئرمین آصف زرداری کو عندیہ اور عہد دے چکے تھے کہ وہ پی پی پی جوائن کریں گے اور پی پی پی کی صوبائی قیادت اس بات کا برملا اظہار کرچکا تھا کہ جلد بلوچستان سے کئی درجن بھر سے زیادہ ایم پی ایز پی پی پی جوائن کریں گے اوروزارتِ اعلیٰ فتح کرنے کے بعد سب سے بڑا گیم سینیٹ الیکشن تھا جہاں بلوچستان سے پی پی پی اپنے سینیٹرز لانا چارہی تھی اور باقاعدہ پی پی پی کی مرکِزی قیادت نے بلوچستان سے اپنی صوبائی قیادت کے کئی نام منتخب کرچکی تھی مگر نہ جانے کیوں وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو اور ان کے رفقاء نے سینیٹ کے الیکشن میں ان کو ووٹ دینے سے انکار کیا اور ن لیگ اور ق لیگ نے مشترکہ طور پر بلوچستان سے کئی غیر معروف غیر سیاسی لوگوں کے ایک گروپ کو لاکر سینیٹر منتخب کرلیا اور میڈیا ذرائع کے مطابق بلوچستان میں سیاسی و نیب کے ذریعے پریشر دے کر کئی ایم پی ایز کی وفاداریاں تبدیل کراکر سینیٹر منتخب کرالیے گئے اوربلوچستان کے مقامی صحافیوں کے مطابق سینیٹر منتخب کرانے اور سینیٹ الکیشن میں گیم چینجر سیندک پروجیکٹ ہی رہا۔
جہاں سیندک پروجیکٹ کے سے مختلف ذرائع سے لیئے گئے ڈیڑھ سے سو ارب روپے سینیٹ الیکشن میں استعمال ہوئے ہیں جہاں بلوچستان کے وسائل کے پیسوں کو یہاں لے مقامی لوگوں کے روزگار پانی بجلی ایجوکیشن ہیلتھ نالی نلکوں روڈ کی تعمیر میں استعمال کیے جاتے وہاں وسائل کے یہ پیسے سینیٹ بُرد کردئے گئے اور سننے میں آرہا ہے چاہینیز کمپنی ایم سی سی کو من پسند سائیٹ پر کام کرنے کی این او سی دینے کے عوض پچاس کروڑ روپے لیے گئے ہیں؛
جن کی ایف آئی اے ؛ نیب تحقیقات کرے کہ کیا یہ ہمارے ملکی وسائل کا ضیاع نہیں ہے اور کیا یہ پیسے ملک کے خزانے میں جمع ہوکر ہماری معاشی حالت بدلنے میں کردار ادا نہیں کرتے
سینیٹ الیکشن کے بعد حالات یہی نظر آرہے تھے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ن لیگ اور ق لیگ سمیت دیگر اراکین پی پی پی جوائن کریں گے
مگر حالات یک دم الٹے پیر دوڑنے لگے اور یہ خبر زیرِ گردش رہی کہ بلوچستان میں ایک نئی جماعت نئے منشور و مقصود کے ساتھ آرہی ہے کسی نے اس کو حقیقت اور کئی نے اس کو فسانہ جانا
بہرحال آج اس جماعت کا ظہور ہوا اور اس جماعت کا نام بلوچستان عوامی پارٹی
( باپ) رکھ دیا گیا جہاں کئی ایم پی ایز بطور باپ وزیر گزیر مشیر جبکہ ان کے بیٹے پارٹی کے ترجمان ہیں اور یوں سمجھ لیں بلوچستان میں باپ بیٹوں کے لیے حالات سازگار کرکے سیاسی جماعت بنا دی گئی ہے جبکہ اس جماعت کو وزن دار بنانے کے لیے چھ آزاد سینیٹرز بھی اس جماعت کی جھولی میں ڈالے جارہے ہیں۔
یہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ پکے کٹر مسلم لیگی بلوچستان کے نام کے ساتھ جُڑ کر ایک سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے سیاست کرنے جارہے ہیں، اور بلوچستان میں ٹرانس جینڈر قوم پرستی کا آغاز ہوچکا ہے اور یہ جماعت لوگوں کو بتانا شروع کرے گی کہ بلوچستان کی اصل خیر خواہ جماعت باپ ہی ہے، جو بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی سکت رکھتی ہے اور جو دیگر بنیادی قوم پرست ہیں ان کہ جمہوریت کے لیے قربانی سوائے فریب کے کچھ بھی نہیں ہیں۔
باپ ہی بلوچستان کے ماوں کو ان کے لاپتہ لخت جگر واپس لا کر دسے سکتی ہےاور وسائل سیندک ؛ ریکوڈک ؛ گوادر کا سیاسی بنیادوں پر دفاع کرکے بلوچستان کے عوام کو خوش حالی آسودہ حالی دے سکتی ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی باپ کا قیام ایک ایسے دور میں ہورہا ہے جب بلوچستان میں ریکوڈک سیندک اور سی پیک نرننگ ایشو ہے اور خاص کر بلوچ نوجوان حلقوں میں ریکوڈک زیر بحث ہے کیونکہ اس منصوبے اس اس خطے کے مفادات وابستہ ہیں جو خوشحالی کا واحد گیٹ وے ہے۔
سابقہ مسلم لیگی اور موجودہ نیم قوم پرست وزیر اعلیٰ نے حالیہ دورہ امریکہ میں ریکوڈک کے حوالے سے آوٹ آف کورٹ فیصلہ کرنے کا عندیہ دیا تھا کہ جلد اس کا حل نکال کر اس پر کام شروع کیا جائے؛ مگر بلوچستان کی گراس روٹ سرفیس کی جماعتیں بی این پی ؛ نیشنل پارٹی جن کی جڑیں بلوچستان کے عوام میں ہیں انہوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ ریکوڈک کے ذخائر پر موجودہ صوبائی حکومت جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے اس منصوبے سے بلوچستان کے مفادات وابستہ ہیں اور بلوچستان کے عوام کے مفادت کے پیشِ نظر اس پر فیصلہ کیا جائے بصورت دیگر کسی بھی بلوچستان دشمن فیصلے کو قبول نہیں کیا جائے گا
چونکہ ریکوڈک ایک عالمی ایشو ہے اور یہ مسئلہ انٹرنیشنل کورٹ میں زیر بحث ہے جس پر دنیا کی نظریں ہیں
ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی بھی چاہتی ہے اس ذخائر پر آوٹ آف کورٹ کوئی سمجھوتہ ہوجائے تاکہ اس ذخاِئر سے بھاری بھر کم منافع کمایا جاسکے چونکہ پوری دنیا میں حکومتوں کو لانے و ختم کرنے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کردار اہم ہے اور اس اہم سیاسی تبدیلی میں ٹی سی سی اور بیرک گولڈ کمپنی کے کردار کو صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا ؛
نئ جماعت بلوچستان کے صحافتی سیاسی سماجی حلقوں میں کافی زیر بحث ہے بشمول سوشل میڈیا جہاں اسے سنجیدگی بلکہ حسِ مزاح کے طور پر بھی لیا جارہا ہے !
سب سے زیادہ سنجیدگی سے اس لیئے جارہا ہے کیا وفاقی قوتیں بلوچستان کی حقیقی سیاسی قیادت سے خائف ہیں کہ۔وہ۔بلوچ بلوچستان کے حقوق ساحل وسائل کی جمہوری انداز میں بات کرتے ہیں اور بلوچستان کے مسائل کا حل جمہوریت جمہوری اداروں اور تعلیم و علم وفن میں ڈھونڈتے ہیں اور سیاسی جماعتیں بنا کر اپنے لوگوں کے حقوق اور سیاسی طور پر انہیں ایجوکیٹ کرنے پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جبکہ دوسری جانب بلوچستان کے حالات ملک کے سامبے ہیں جہاں غربت بےروزگاری اور سہولیات زندگی نہ ہونے کے سب لوگوں کا اعتماد جمہوریت اور جمہوری اداروں سے اُٹھ چکا ہے اور اب باپ جیای جماعتوں کا قیام جن کی قیادت گذشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار میں ہیں اور گردن تک کرپشن میں ڈھلی ہوئی ہیں بلوچستان اور یہاں کے نوجوانوں لوگوں کے فیصلے ایسے لوگوں۔کے ہاتھوں میں دینا اور یہاں کہ حقیقی قوم دوست قوتوں کی جمہوری سیاست کے سامنے بند و پُل باندھنا ایک۔سنگین سیاسی و انتظامی غلطی ہوگی جو بلوچستان میں رہی سہی جمہوری سیاسی کلچر و جمہوری سیاست کے میت کو دفن کرنے کے لیے کافی ہوگا
اور ایک بدحال صوبے میں راتوں رات باپ جیسی سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے جس کے ردعمل کے بھاپ سے کئی دست و پاءجھلس سکتے ہیں جو ہرگز جمہور جمہوریت اس صوبے اور اس ملک کے مفاد میں بہتر نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔
شکریہ
کاظم ذگر بلوچ جنرل سیکرٹری پریس کلب نوکنڈی