بلوچستان کی تقسیم اور براہمدغ بگٹی کا موقف
شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
براہمدغ بگٹی کے بقول 27 مارچ کو بطور قبضہ کے حوالے سے بلیک ڈے منانا بلوچ گلزمین کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے اور اس حوالے سے وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ برٹش بلوچستان اپنی مرضی سے پاکستان کا حصہ بنا، جب کہ ریاست قلات پر صرف قبضہ ہوا لیکن موصوف یہ واضح نہیں کرتے کہ بلوچ گلزمین کو برٹش بلوچستان یا ریاست قلات کے درمیان تقسیم کیا بلوچ عوام کی مرضی سے ہوئی تھی یا برطانیہ کی سامراجی پالیسیاں تھیں؟
1839 کے بعد جب گولڈ سمڈ لائن یا ڈیورائنڈ لائن کے تحت بلوچ گلزمین کی تقسیم تو براہمدغ بگٹی کو قبول ہے اور وہ ایرانی مقبوضہ گلزمین پر بات تک نہیں کرنا چاہتے لیکن یہاں وہ سامراج کی پالیسیوں کو تاریخی حقائق سے تشبیہہ دیکر یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بلوچوں کی اکثریت از خود بخوشی پاکستان کی غلامی قبول کرچکے تھے جبکہ ایک محدود حصہ پر بعد میں قبضہ کیا گیا۔
قابل غور امر یہ ہے کہ آج کیوں تاریخی حقائق کو کھنگالنے کا خیال آیا اور اگر آیا بھی تو قبضہ گیر کی عینک سے کیوں تاریخی حقائق کو مسخ شدہ حالت میں پیش کیا جارہا ہے؟
1839 سے لے کر اب تک مسلسل نوآبادیاتی پالیسیوں کا تسلسل چلتا آرہا ہے، جس کے مد مقابل بلوچ ہمیشہ ناکام ہوتا آیا ہے، کیونکہ ہماری جدوجہد محدود رہی ہے، اس میں وہ وسعت نہیں پیدا کی جاسکی جو نوآبادیاتی میکانزم کے مدمقابل کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل کئے جاسکے اور پھر بدقسمتی سے بی ایس او کے سیاسی عمل سے گذرنے کے علاوہ اکثریت لیڈر شپ قبائلی شخصیت ہی گذرے ہیں جن کی اولین ترجیحات نہایت محدود رہے ہیں اور آج اکیسویں صدی میں بھی قبائلی چہرے تبدیل ضرور ہوچکے ہیں لیکن ان کے ذہنیت وہی دقیانوسی خیالات سے بھرپور ہیں۔ آج جب ضرورت از سر نو صف بندی اور تحریک کو ادارتی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے وسیع النظر بنیادوں پر سوچنے کی ضرورت ہے، تو ایسے میں قبائلی رہنما تحریک کی بنیادوں پر وار کرنے کے لیئے ایک فضول ماحول کو جنم دے رہے ہیں۔
لیڈر شپ کی ایک کوالٹی ہوتی ہے، جو انسانی وسائل کو تنظیمی سانچھے میں ڈھال کر ان سے طاقت کی بہترین تخلیق کرتے ہیں لیکن یہاں تو کچھ اور ہی ہوتا آیا ہے۔ آج کا بلوچ رہنما قبائلی رہنما بن چکا ہے اسے بلوچ رہنما بننے سے کئی گنا زیادہ عزیز “نوابی” کا ٹائٹل ہوچکا ہے لیکن ایک سوال ان سے یہ بھی ہے کہ انگریز کے دیئے ہوئے نوابی کے ٹائٹل پر بھی ذرا تاریخی حقائق قوم کے سامنے لائیں، ایک یوسف عزیز مگسی تھے جنہوں نے نیشنلزم کی خاطر نوابی اور میر جیسے ٹائٹل کو کھرچ کر مٹایا تھا اور یہ اظہار کیا تھا کہ مجھے اس لعنت سے نجات مل گئی۔
تاریخی حقائق کی بنیاد پر جس بلوچ نیشنلزم کی جدوجہد کا احیاء ہوتا ہے اور پھر جس انداز میں بلوچ قوم خاص کر بلوچ جہدکار شعوری انداز میں آگے بڑھتے ہیں اور جب ان کی نظریں باہر بیٹھے لیڈر شپ پر مرکوز رہتی ہے کہ وہ اجتماعی مفادات کو ترجیح دینگے اور دوراندیشانہ فیصلے کرینگے لیکن آخر میں وہ رہنما اس سطح پر پہنچ جاتے ہیں کہ وہ جہدکاروں کی راہ میں نہ صرف رکاوٹ بننا شروع کردیتے ہیں بلکہ جہد کی بنیادوں کو ہلانا شروع کردیتے ہیں۔
شاید کوئی ان سے اب بھی امید رکھ سکتا ہے لیکن شعور کا پیغام واضح ہے کہ ان قبائلی ذہنوں سے اب کسی بہتری کی امید نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ جب یہ جدوجہد کی بنیاد پر اپنا وار کرچکے ہیں، تب یہ کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں، اس لیئے اب بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ حقیقی جہدکار ان سے الگ اپنی راہ تلاش کریں، یہ بنا کچھ نہیں سکتے لیکن بگاڑنے پر بہت کچھ تلے ہوئے ہیں اور جب تک تحریک ان کے ہاتھوں یرغمال ہے، بد سے مزید بدتری کے امکانات ہی ہونگے۔ یہاں ان جہدکاروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جدوجہد کو کیسے منظم کرتے ہوئے اداروں کی تشکیل کرتے ہیں اور انسانی ذرائع کا بہترین استعمال کرتے ہیں۔
جہاں تک بات رہی غلامی کو قبول کرکے اسے خوشنما بنانے کی تو ویسے بھی ایسے قبائلی شخصیات کی بھرمار ہے لیکن تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ سے اٹل ہوتا ہے اور یہ فیصلہ بھی ہم تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ کون بلوچ گلزمین کی آڑ میں بلوچ جدوجہد کو تقسیم کررہا ہے۔