ایک جہدکار کی آپ بیتی – فیصل بلوچ

446

ایک جہدکار کی آپ بیتی

تحریر: فیصل بلوچ

(آخری حصہ)

 حصہ اول : ایک جہدکار کی آپ بیتی

 

اب میں اپنے کام پہ لگ گیا، ایک ایسا لنک ڈھونڈنے لگا جو مجھے سرمچاروں سے ملا دے، یہ لنک ڈھونڈتے ڈھونڈتے پانچ مہینے گذر گئے اور ایک دن مجھے وہ لنک مل گیا، جب مجھے میرے گھر سے پتہ چلا کہ میرا تایا زاد بھائ اسرار احمد (فرضی نام) کا رابطہ سرمچاروں کے ساتھ ہے، تو مجھے میرا خواب حقیقت میں بدلتا نظر آنے لگا مجھے لگا اب میں اسرار بھائی کے ذریعے سرمچاروں تک پہنچونگا، وہاں مجھے عسکری ٹریننگ ملے گی۔ شراب، شباب و کباب کے مزے اڑاؤنگا اپنی مرضی سے چوریاں کرونگا، پاکستان مخالف خفیہ ایجنسیوں سے پیسے ملینگے، میری تو زندگی ہی بدل جائیگی، اس ذلت کی زندگی سے کہیں دور نکل جاؤنگا ان میر و معتبروں کی غلامی سے چھٹکارا مل جائے گاـ

اب اپنے کزن سے رابطہ کرنے کی کوشش کرنے لگا مگر اسرار بھائی تو مجھ سے بات تک کرنا نہیں چاہتا تھا، جب مجھے لگا کہ فون پر اسرار بھائی مجھ سے بات نہیں کریگا، تو ان سے ملنے کی تدابیر سوچنے لگا، جب زیب زہری کے پناہ سے بھاگنے کے سوا کوئی راہ نظر نہ آئی، تو ہمت کر کے ایک روز ذاتی کام کا بہانہ بنا کر میر کے قلعے سے نکل کر خضدار چلا گیا، پھر وہاں سے اسرار بھائی کے گھر چلا گیا، جو خضدار کے کسی کونے میں رہائش پذیر تھا، گھر پہنچ کر اسرار بھائی سے ملا انکی منت سماجت کرنے لگا کہ مجھے سرمچاروں کے پاس لے چلو۔ میں مقبوضہ بلوچستان کے آزادی کے لیئے لڑونگا اسرار بھائی میرے حرکتوں سے واقف تھا انکو پتہ تھا کہ میرا کریکٹر کیسا ہے اس لیئے وہ مان ہی نہیں رہا تھا کہ انکا سرمچاروں کے ساتھ کوئی رابطہ ہےـ بہت کوشِشوں کے بعد اسرار بھائ کو منانے میں کامیاب ہوا، انہوں نے بولا میں اپنے ریجنل کمانڈ سے بات کر کے آپ کو بتاؤنگاـ

پھر مجھے تین مہینے انتظار کرنا پڑا اس دوران میں اسرار بھائی کے نگرانی میں ان کے ایک دوست کے گھر میں رہا اور اپنے پرانے دوستوں سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھا، کیونکہ میں ٹریننگ لیکر ایک خود مختار، میر بنکر انہیں سرپرائز دینا چاہتا تھاـ تین مہینے بعد اسرار بھائی خود مجھے ملنے آئے کیونکہ پچھلے تین مہینوں میں ہم کبھی کبھی اسرار بھائی کے دوست کے فون سے رابطہ کرتے کیونکہ میں نے اپنے کنٹیکٹ نمبرز بند کر دیئے تھےـ

ایک روز آکر اسرار بھائ نے بولا تیاری کرلو فلاں فلاں ضرورت کی چیزیں لے لو ہم دو دن بعد نکلیں گے، تنظیم کے ٹریننگ کیمپ کی طرف جو چیزیں لینے کو اسرار بھائی نے بتایا تھا، ان میں سوئی،دھاگہ،کنگھی،چھوٹا سا آئینہ،سرسوں کا تیل،نہانے اور کپڑے دھونے والے صابن بھی لینے تھے، مگر میں حیران تھا کہ یہ بے مقصد چیزیں کیوں لینے ہیں، وہاں تو پیسے کی ریل پیل ہوگی، پاکستان مخالف قوتیں انکو اتنے سارے عیاشیاں دے رہے ہیں، تو پھر ان ہلکی پھلکی چیزوں کی کیا ضرورت؟ مجھے گہری سوچ میں دیکھ کر اسرار بھائی نے پوچھا “کیا ہوا سلیم کیوں پریشان ہو۔” تو میں چونک کر انکی طرف دیکھا اور کہا کچھ نہیں بھائی ویسے ہی کچھ سوچ رہا تھاـ

جب ضرورت کی تمام اشیاء برابر ہوئے تو ٹھیک دو دن بعد ہم نکلے، دو دن گاڑی میں سفر کرکے ایک پسماندہ گاؤں میں پہنچے، جس کے نوے فیصد گھر گھاس پھوس سے بنے تھے، چاردیواری نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ بجلی، سکول اور ہسپتال کا نام و نشان تک نہیں تھا، پانی لینے عورتیں اور بچے گدھوں پہ بہت دور جاتے اور جہاں سے پانی لاتے، وہاں اپنی مدد آپ کُھودا ہوا کنواں تھاـ

گاؤں میں کچھ گھر جلے ہوئے ملے، کچھ گرے ہوئے، دو چار موٹر سائیکل اور گاڑیاں جلی ہوئی ملیں۔ کھیتوں کے پاس کچھ جلے ہوئے نشانات ملے، گاؤں کے جو باسی تھے، انکے کپڑے پُرانے مگر صاف ستھرے تھے، گاؤں کافی بڑا تھا، مگر گاؤں میں مرد کم ہی نظر آرہے تھے، اسرار بھائی نے ایک بار پھر مجھے گہری سوچ سے نکالنے کے لیئے ہلکا سا مگر پیار بھرا چماٹ مار کے کہا “کہاں کھو گئے بھائی، ابھی تو بہت سارے نظارے دیکھنا باقی ہیں۔” میں نے پوچھا “بھائی یہ سب کیا ہیں؟ اور آپ مجھے کہاں لے آئے؟” تو اسرار بھائی نے کہا یہ فلاں گاؤں ہے اور فلاں آزادی پسند رہنما کا علاقہ ہے، جو بیسویں صدی میں بھی ہزاروں سال پہلے دور کا نظارہ پیش کررہا ہے، ٹیکنالوجی کے صدی میں بھی یہاں کے لوگ بجلی،تعلیم،صاف پانی اور معیاری علاج کے سہولتوں سے محروم ہیں اور یہ جو جلے ہوئے اور گِرے ہوئے مکانات دیکھ رہے ہو، یہ پاکستانی فوج کی کارستانیاں ہیں، آئے روز یہاں فوجی آپریشنیں ہوتے ہیں۔ لوگوں کے گھر جلا دیئے جاتے ہیں، قیمتی سامان جیسے سونا، چاندی ضرورت کے علاوہ اضافی پیسے بھی یہاں ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے کیونکہ سارے قیمتی سامان پاکستانی فوج اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ لوٹ کر لے گئے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ ڈیتھ اسکواڈ کیا ہوتا ہے، تو انہوں نے کہا وہی لوگ جن کے ساتھ تم کام کرتے تھے، یعنی زیب زہری،شفیق مینگل، ثناءزہری،علی حیدر محمد حسنی، ڈاکٹر مالک اور سراج رئیسانی وغیرہ جو اپنے اپنے علاقوں میں ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ ہیں اور تم جیسے لوگوں کو لالچ اور بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے گروہ میں ملا کر تم لوگوں سے الٹے کام لیتے ہیں اور جب انکا کام پورا ہوتا ہے، تو وہ تم جیسوں کو مار کر کہیں گمنام جگہ دفنا کے اپنے نئے لڑکوں سے کام لیتے ہیں ـ

جب یہ سنا تو میرے دماغ میں ہلچل ہوئی، کیونکہ ہمارے بہت سے ساتھی جو ہمارے ساتھ زیب زہری کیلئے کام کرتے تھے، اچانک غائب ہوجاتے پوچھنے پر نائب لوگ کہتے کہ کام چھوڑ کر چپکے سے بھاگ گئے ہیں، اب سمجھ آگیا کہ کہاں بھاگ گئے ہیں وہ لوگ ـ پھر اسرار بھائی نے کچھ جلے ہوئے کمروں کی طرف اشارہ کرکے بتایا “یہ وہ کمرے ہیں، جن میں علاقے کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک سکول اور ایک چھوٹا سا میڈیکل سٹور قائم کیا تھا، مگر پاکستانی فوج نے یہاں فرائض انجام دینے والے دونوں افراد یعنی ٹیچر اور ڈاکٹر کو اغواء کر لیا اور ان کچے عمارتوں کو آگ لگادی، علاقے کے لوگوں کو دھمکی دیکر گئے ہیں کہ یہاں کوئ سکول و ہسپتال دوبارہ نہ کھولنا، ورنہ پورے علاقے کو آگ لگا دیں گے بلوچوں کو نہ پڑھنے کا حق ہے اور نہ صحت مند رہنے کا، اب ہم کسی استاد کو واحد قمبر اور کسی ڈاکٹر کو اللہ نذر بننے نہیں دینگےـ”

قدم قدم پہ مجھے سرپرائزز مل رہے تھے، میں پریشان تھا کہ یہ ڈاکٹر اللہ نذر اور استاد اسلم بلوچ پاکستان مخالف قوتوں سے پیسہ لےکر کہاں جائیدادیں بنا رہے ہیں، یہاں ان کے لوگ بد حالی کی زندگی گذار رہے ہیں ـ کچھ لمحے بعد چند مسلح لوگ موٹر سائیکل پہ آکر ہمارے قریب رک گئے سلام دعا کے بعد ہمیں ساتھ لیکر پہاڑوں کی طرف نکل پڑے ـ

ایک گھنٹے موٹر سائیکل پہ سواری کے بعد پہاڑوں کے بیچ پہنچ گئے، موٹر سائیکلیں وہاں کہیں جھاڑیوں میں چھپا کے پیدل روانہ ہوگئے، تین گھنٹے پیدل سفر کرنے کے بعد تنظیم کے کیمپ پہنچ گئے، شام کا وقت تھا، چند سرمچار کھانا بنا رہے تھے، چند سرمچار ایک کماش کے گرد گول دائرہ بنائے بیٹھے تھے، سیاسی بحث چل رہا تھا، وہاں پہنچتے ہم نے سلام کیا تو سارے سرمچار ہماری طرف متوجہ ہوگئے، سلام کا جواب دیکر سارے سرمچار ہمارے پاس جمع ہوگئے، ہاتھ ملائے پھر وہ کماش جو نوجوانوں کے بیچ بیٹھا نوجوانوں کے سیاسی سوالوں کے جوابات دے رہے تھے، میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ اپنے بغل میں مجھے بٹھایاـ

پانی پینے کے بعد بلوچی حال حوال ہوا، حال حوال کے بعد ہمیں چائے پلائی گئی، چائے پینے کے بعد کماش کے ساتھ گپ شپ شروع ہوا، گپ شپ کے بیچ میں پتہ چلا یہ کماش کوئی اور نہیں بلکہ بی ایل ایف کے سر کماش ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ہے، تو مجھے اپنی آنکھوں پہ یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو اپنے سامنے بیٹھے دیکھ رہا ہوں ـ

انکے ساتھ گپ شپ کیا انکے ساتھ چائے پیا، یہ وہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ہے جس کے بارے میں پاکستانی سرکار اور مقامی دلال پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ پاکستان سے باہر انڈیا میں بیٹھ کر پاکستان مخالف قوتوں سے پیسے لیکر اپنے دہشت گردوں کے ذریعے بلوچوں پر ظلم ڈھا رہا ہے، بے گناہ بلوچوں کا قتلِ عام کروا رہا ہے، وہاں باہر بیٹھ کر وہ عیاشیاں کرتا ہے، شراب، شباب اور کباب ان کے روز کے معمول ہیں اور یہاں انکے دہشت گرد اپنے کیمپوں میں عیاشیاں کررہے ہیں شراب، شباب اور کباب کے مزے اُڑا رہے ہیں ـ

یہاں تو معاملہ الٹا نکلا ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ اپنے سرمچاروں کے ساتھ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں بیٹھ کر شراب، شباب اور کباب کے عیاشیوں سے کوسوں دور پتھروں پہ بیٹھ کے اپنے سرمچار سنگتوں کے ساتھ سیاسی بحث و مباحثہ کررہے تھے، وہی پانی پی رہے ہیں، جو عام سرمچار پیتے ہیں، وہی کھانا اور وہی بستر، استعمال کر رہے ہیں، جو عام بلوچ سرمچار استعمال کرتے ہیں ـ

میں جو بلوچ قوم کا مجرم ہوں، کیا کچھ نہیں کیا بلوچ قوم کے خلاف میں نے، چوری، ڈکیتی، زنا، بلوچ نوجوانوں کے اغواء میں ملوث رہا لیکن یہاں پہنچا تو یہ عظیم ہستی یہ تک نہ پوچھے کہ کون ہو، کہاں سے آئے ہو، کیا کرتے ہو، کیا کچھ کر کے آئے ہو؟ نہیں سیدھا سلام دعا ہاتھ چوم کے اپنے بغل میں بٹھا دیا۔ اپنے ساتھ بٹھا کہ چائے پلایا پھر کھانا کھلا یا۔ رات کو اپنا بستر زبردستی مجھے دیکر خود چادر میں سو گئے، سرمچاروں کے لاکھ منت سماجت کے باوجود کسی کا بھی بستر نہ لیا۔ جب یہ سب کچھ میں نے دیکھا تو مجھے لگا، یا تو پاکستان جھوٹ بول رہا ہے یا پھر سرمچار بہت بڑا ڈرامہ کر رہے ہیں لیکن اگلے چند مہینوں میں ٹریننگ کے دوران جو میں نے دیکھا، وہ ایک بلوچ کی آنکھیں کھولنے کے لیئے کافی تھا کیونکہ دو دنوں کے بعد ہم ڈاکٹر صاحب سے رخصت ہوکر ٹریننگ کیمپ کی جانب چلے گئے، کئی گھنٹوں کی پیدل سفر کے بعد ہم ٹریننگ کیمپ پہنچے، جب وہاں پہنچے تو وہی روٹین تھا، پانی پیئے، بلوچی حال حوال ہوا، پھر چائے پلادی گئی، رات کو کھانا کھا کر سوگئے اگلے دن ٹریننگ شروع ہوا ٹریننگ میں عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی اور اخلاقی تربیت چلتی رہی ـ

یہاں سے جو میں نے سیکھا میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، بندہ وہ سب کچھ کسی کالج یا یونیورسٹی سے بھی نہیں سیکھ سکتا کیونکہ سب سے پہلے میرے سامنے پاکستان کے ان مقامی دلالوں کا وہ جھوٹ کھل گیا، جو میر و معتبر انکے نائبین اور انکے چمچے ہر وقت بولتے رہتے کہ سرمچار پہاڑوں میں عیاشیاں کرتے ہیں، ہر وقت سجی، کباب اور شراب کے نشے میں ہوتے ہیں ـ لیکن میں نے جو دیکھا وہ اس کی نفی کر رہا تھا۔

سرمچار ایک معتبر نام، ایک احساس، عیاشیوں، ذاتی ضروریات کو قوم و وطن کے نام پہ قربان کرنے والے عظیم کردار اپنوں سے سالہا سال دور مگر جو زندگی وہ پہاڑوں میں جی رہے ہیں، وہ دیکھ کے دل خون کے آنسو روتا ہے، پھٹے پرانے جوتےپہنے، کپڑوں میں پیوند لگا ہوا جو سنت نبوی ہے، ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے، دوسرے وقت کا کھانا ملتا نہیں کبھی چائے کے ساتھ روٹی تو کبھی کبھی صرف خشک روٹی پہ گذارہ، مگر ہمت دیدنی، خشک روٹی جیب میں ڈال کے جب گشت پہ نکلتے ہیں تو دشمن کو ناکوں چنے چبواتے ہیں ـ

ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کا وہ مظاہرہ کہ ناقابلِ بیان کیمپ کے کام ساتھ مل کر کرنا اگر ایک دوست چائے بنا رہا ہے تو دوسرا پیالے دھوتا ہوا ملے گا، کوئی آٹا گوند رہا ہے تو باقی سرمچار لکڑیاں چُننے نکل جاتے، کوئی سالن بنا رہا ہے تو کوئ پلیٹیں دھوتا ہوا ملے گا، کوئی پانی لینے جارہا ہے تو کوئی گھاٹ سے آئے ہوئے سنگت کے لیئے چائے پانی کے انتظام میں لگا ہوا ہے، ایک ایسا نظم و ضبط کہ میں بیان ہی نہیں کر سکتاـ

روز صبح نیند سے بیدار ہوتے ہی دو سنگت گھاٹ کے لیئے نکلتے، ایک سنگت چائے کی تیاری میں لگتا جبکہ باقی سارے سنگت ایکسرسائز کو نکلتے، آدھا گھنٹہ ایسکر سائز کے بعد جب سنگت کیمپ میں پہنچتے تو چائے کے ساتھ کبھی کبھی رات کی بچی ہوئی روٹی ملتی تو خوشی سے کھا کر کیمپ کے کاموں میں لگ جاتے، یہاں ایک بات میں نے نوٹ کیا کہ سنگت چاہے جیسے بھی کام میں مصروف ہوتے، پر سیاسی بحث ساتھ میں چل رہا ہوتا، مقامی سیاست سے لیکر عالمی سیاست تک سب کچھ بحث میں شامل تھاـ

جو پڑھے لکھے سنگت تھے وہ آپس میں عالمی سیاست پر بحث کرتے تھے اور جو ان پڑھ تھے انکے ساتھ پڑھے لکھے سنگت مقامی سیاست پر بحث کرتے اور ہر روز شام کو کھانے کے بعد مجلس و دیوان ہوتا، جس میں روز ایک تعلیم یافتہ سنگت بشمولِ کیمپ کمانڈر مختلف موضوعات پر لیکچر دیتے جو کہ زیادہ تر اخلاقی اور اصلاحی موضوعات پر مشتمل ہوتےـ

یہاں میرا چار مہینے تک عسکری،سیاسی اور اخلاقی تربیت ہوا، جب میرا کورس مکمل ہوا تو میں ایک انسان نما جانور سے مکمل انسان بن گیا تھا، اب مجھے احساس ہوگیا کہ میں تو ایک مطلبی، مفاد پرست،میر و معتبروں کے اشارے پہ چلنے والا وہ شیر تھا جو اپنی اصل طاقت، اپنی اوقات اور اپنا رعب و دبدبہ بھول کر چابک کی ڈر اور گندے سے گوشت کے ٹکڑے کیلئے سرکس میں ناچتا ہےـ اب میں جان گیا تھا کہ میں کیا چیز ہوں قوم اور قومیت کیاچیز ہوتی ہےـ

اب میں وہ سلیم نہیں تھا جو چوری چکاری، بدمعاشی اور برے عادتوں کی وجہ سے مشہور تھا، اب میری اتنی تربیت ہوگئی تھی کہ میں کیمپ کے مجلس و دیوانوں کے علاوہ جب گشت پہ نکلتا، تو جہاں موقع ملتا وہاں سیاسی و ادبی لیکچرز دے دیتاـ

ایک بار ہم نے ایک فوجی قافلے پہ حملہ کردیا، جس میں کئی فوجی بشمول چند فوجی افسران اور دو مقامی مخبر ہلاک ہوئے۔ جب فوج کو اتنا بڑا نقصان ہوا تو انہوں نے سرمچاروں کا غصہ قریبی علاقے پہ اتار دیا، بھاری فوجی تعداد اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ساتھ قریبی علاقے پہ دھاوا بول دیا جو کہ تین سو گھروں پر مشتمل تھا، تین دن اس علاقے میں آپریشن کرنے کے بعد جب فوج نکلا تو واپسی پہ ہم نے فوج پہ ایک بار پھر بہت بڑا حملہ کردیا، فوج کو ایک بار پھر کافی جانی و مالی نقصان پہنچایاـ پھر متاثرہ علاقے کی طرف نکل پڑےـ جب وہاں پہنچے تو عجیب منظر ہمارا منتظر تھا، وہ علاقہ جو تین سو گھروں پر مشتمل ایک حسین و جمیل قصبہ تھا اب فوجی آپریشن کے بعد ایک سو سال پرانے کھنڈر کا نظارہ پیش کررہا تھا، علاقے کے اسّی، نوے فیصد گھر جلائے اور گرائے گئے تھے۔ وہاں موجود تمام مردوں بشمول نوجوان لڑکوں کو فوج اٹھا کر لے گیا تھا۔ عورتوں اور بچوں کو شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، کچھ عورتوں پہ جنسی تشدد کی کوشش کی گئی تھی، مگر سخت مزاحمت کی وجہ سے جسمانی تشدد تک محدود رہے تھے، گھروں کی تلاشی کے بہانے لوگوں کے گھروں سے پیسے اور سونے چاندی کے زیورات چُرا لیئے تھے، ویسے بلوچستان میں غربت اور پسماندگی آخری درجے کی ہے، مگر سونے اور چاندی کے زیورات یہاں کے رسم و رواج میں شامل ہیں، اس لیئے یہاں کے لوگ پیٹ کاٹ کے سخت محنت کرکے اپنے گھر والوں کو سونے چاندی کے زیورات دلا دیتے ہیں، مگر فوج ان سب کو لوٹ کر لے گیا تھاـ

یہاں کے لوگوں کا گذربسر مال مویشیوں پر ہوتا تھا، سارا سال مال مویشی پال کر اپنا گھر چلاتے تھے، بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے بیل اور گدھے وغیرہ انکی کل کائنات ہوتی ہے ـ

اونٹ اور گدھوں سے مال برداری کا کام لیتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے پاس گاڑی اور موٹر سائیکل نہیں ہوتے وہ انہی اونٹوں اور گدھوں پہ بازار جاکر اپنا راشن وغیرہ لاتے ہیں، ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرنا ہو تو انہی اونٹوں اور گدھوں پہ سفر کرتے ہیں، بیل حل چلانے کے کام آتے ہیں، گائے اور بھیڑ بکریوں سے دودھ لیتے ہیں بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے اور بیل کا گوبر جلا کر ان پہ روٹیاں پکاتے ہیں ـ

بھیڑ بکریاں بیچ کر اپنے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں، انکی کھالوں سے مشکیزے وغیرہ بناتے ہیں، مگر پاکستان کے یزیدی فوج نے ان سب کے جانوروں کو قبضے میں لیکر تین دن تک ذبحہ کر کے کھاتے رہے اور جب جانے لگے تو کچھ اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے اور باقیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا، یوں پورے علاقے کو تباہ و برباد کرکے چلے گئے، گھروں کو لوٹنے کے بعد جلا اور گرا دیا، جانوروں کو مار دیا اب علاقے کے لوگ بے سروسامانی کے حالت میں آسمان تلے زمینی خداؤں کو کوس رہے تھے اور اپنی قسمت پہ رو رہے تھے ـ

آگے جاکر جو میں نے دیکھا وہ میرا غیرتِ ایمانی جگانے کے لیئے کافی تھا، کیمپ میں جب بھی موضوع پاکستان اور پاکستانی افواج کا چلتا تو سنگت کافر کہہ کر پکارتے، مگر میں کوئی خاص توجہ نہ دیتا کہ انہیں کافر کیوں کہتے ہیں، مگر اس دن جو میں نے دیکھا تو اپنے دل میں سوچا اگر کوئی کافر بھی ہمارا دشمن ہوتا وہ ایسی ذلیل حرکت نہیں کرتا، جو حرکت پاکستانی فوج نے کیا تھا، وہ ہمارے بزرگوں اور ان حضرات کے لیئے ایک صاف و شفاف جواب تھا، جو پاکستان کو اسلامی ملک اور پاکستانی فوج کو اللہ کا فوج کہہ کر تھکتے نہیں کیونکہ ان ظالموں نے اللہ کے گھر مسجد کو بمبارمنٹ کا نشانہ بنایا تھا، جس کی وجہ سے مسجد شہید ہوگیا تھا اور بمباری کی وجہ سے مسجد میں رکھے سارے قرآن بھی جل کر شہید ہوگئے تھے، اس کے باوجود تین دن تک علاقے میں موجود فوج نے نہ مسجد کی طرف توجہ دیا تھا اور نہ قرآنوں کی طرف، جب یہ سب دیکھا تو مجھے یاد آگیا کہ “مِیر” کے بیٹھک میں جب بھی سرمچاروں کا ذکر ہوتا، تو میر اور اس کے چمچے شراب کے نشے میں کافر کہہ کر گالیاں بکتے تھے، ایف سی کے افسران اور میر و معتبر لوگ آپس میں شراب اور عورتوں کی ادلا بدلی کرتے، جب شراب اور شباب سے فارغ ہوتے تو طالبان اور داعش کے مولوی لوگ آکر ان کے ساتھ بیٹھ کر کباب کے مزے اڑاتے اور بلوچ تحریک کے خلاف پلاننگ کرتے، اب سمجھ آگیا کہ مِیر کے الماری میں بھرے شراب کی بوتلوں سے ایف سی و ملاؤں کو کیوں اعتراض نہیں تھا کیونکہ یہ سب خود شراب، شباب اور کباب کے پجاری ہیں اور الزام بلوچ سرمچاروں پہ لگاتے ہیں، آج بلوچستان کے کونے کونے میں پاکستانی فوج کے ٹارچر سیل موجود ہیں اور انکے بغل میں مولوی کا مدرسہ و حجرہ دونوں مل کر بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنا چاہتے ہیں ـ

ہماری موجودگی میں چند آزادی پسند سیاسی تنظیموں کے لوگ آگئے، جن کے پاس راشن کا سامان، دوائیاں، کمبل اور دیگر ضرورت کے اشیاء تھے، جو انہوں نے متاثرہ لوگوں میں بانٹنا شروع کر دیا اور ہم وہاں سے نکل گئے پھر یہ روز کا معمول بن گیا، بلوچ سرمچار فوجی قافلوں، چوکیوں اور کیمپوں پہ حملہ کرتے اور فوج اپنے توپوں کا رخ عام بلوچ عوام کی طرف موڑدیتاـ

ایک روز ہم بیٹھے ایک گشت ترتیب دے رہےتھے کہ ایک سنگت نے آکر خبر دی کہ زہری تراسانی میں ایک بم حملے میں زیب زہری، سکندر اور مہراللہ ہلاک ہوگئے ہیں، یہ خبر سن کر بے انتہا خوشی ہوئی اور میں سجدے میں گر گیا رب کا شکر ادا کرنے لگا کہ زیب زہری مارا گیا کیونکہ ان دنوں زیب زہری کے مظالم حد سے زیادہ بڑھ گئے تھے، چوری، ڈکیتی، قتل و غارت، اغواء برائے تاوان اور زنا بالجبر کے واقعات انتہا کو پہنچ گئے تھےـ

ان نرمزاروں کے لیئے پورا بلوچ قوم ہاتھ اٹھائے دعائے خیر مانگ رہا تھا، جنہوں نے یہ عظیم کارنامہ سرانجام دیاتھا حالانکہ جنگ باقی تھا، بڑے بڑے دشمن و غدار جیسے شفیق مینگل، نصیر مینگل، ثناء اللہ زہری، ڈاکٹر مالک، سراج رئیسانی، سرفراز بگٹی وغیرہ زندہ تھے لیکن زیب زہری اس درجے کا دلال تھا، جس کے لیئے GHQ میں آرمی افسران گلہ پھاڑ کر روئے تھے کہ زیب زہری کیوں مارا گیا، اس کی جگہ ثناء زہری مارا جاتاـ

زیب زہری کے ہلاکت کے بعد جھالاوان سمیت پورے بلوچستان میں ایک سکون سا چھا گیا حالانکہ شفیق مینگل اور ثناء زہری جیسے غدار زندہ تھے، مگر سرمچاروں کے خوف سے کچھ لمحوں کے لیئے اپنے بِلوں میں دبک کر پڑے رہےـ

زیب زہری کے مرنے کے بعد میں اپنے گھر کا چکر لگانا چاہتا تھا لیکن والد صاحب کے رویئے سے ڈر لگتا تھا حالانکہ اب جس راہ پہ میں چلا تھا یہاں صفائیاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی، مگر پھر بھی اسرار بھائی کو گھر بھیج کر ابو سے بات کروانا چاہتا تھا، جب اسرار بھائی نے گرین سگنل دیا تو پارٹی سے چھٹی لیکر گھر آگیا، گھر پہنچتے امی اور ابو نے گلے سے لگایا کافی ساری نیک دعائیں لیں، ابو نے بولا اب ہم فخر سے کہیں گے کہ سلیم ہمارا بیٹا ہے، اب تم نے وہ کام کیا ہے، جو ایک باشعور و باضمیر بلوچ کرتا ہے، اب اگر اس راہ میں ہمارے پورے خاندان کو جس قسم کی بھی قربانی دینی پڑی تو ہم پیچھے نہیں ہٹینگے، جب گھر والوں کا یہ رویہ دیکھا تو میرے آنسو نکل آئے، میرے آنسو دیکھتے ہی سارے گھر والوں کے آنسو نکل پڑے مگر اسرار بھائی نے بیچ میں آکر سب کو سنبھال لیا ـ

کافی دن گھر میں رہنے کے بعد پتہ چلا کہ پاکستانی خفیہ ادارے میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں، تو گھر والوں سے اجازت لیکر دوبارہ پارٹی کیمپ پہنچ گیا اور اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا اس دوران بلوچ قومی تحریک میں کافی نشیب و فراز آئے تحریک کی مقبولیت سے بوکھلا کر ریاست نے فوجی آپریشنیں بڑھا دیئے، پہلے نوجوانوں کو اغواء کر کے مسخ شدہ لاشیں پھینک دیتے تھے لیکن اب عورتوں اور بچوں کو بھی اغواء کر کے ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار بنانے لگے اور اس نیچ و ذلیل حرکت میں مقامی دلال و ڈیتھ اسکواڈ بھی انکے ساتھ دینے لگے، جس کی مثال حالیہ دنوں مشکے میں ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ علی حیدر محمد حسنی اور پاکستانی فوج کے مشترکہ ٹارچر سیل سے ایک بلوچ بیٹی کی تشدد زدہ لاش کا ملنا ہےـ

کئی سرمچاروں نے مادرِ وطن پہ جان قربان کر کے تحریک کو جان بخشی شہید سلیمان عرف شیہک جان، شہید سفر خان، شہید علی نواز گوہر، شہید امیرالملک، شہید کاکا علی وغیرہ اور حالیہ دنوں زہری تراسانی میں شہید ضیاء عرف دلجان اور شہید نورالحق عرف بارگ جان نے بلوچ وطن پہ جان قربان کر کے بلوچ قومی تحریک میں جاں پھونک دی ـ

کئ سالوں کی دوریوں کے بعد بلوچ قومی تحریک کے مخلص سنگتوں کی محنت رنگ لائی جب بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی کے مابین مشترکہ لائحہ عمل طے ہوا تو سنگتوں کے مشورے سے میں چند ساتھیوں سمیت شور پارود قلات کے پہاڑوں میں آکر بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے مشترکہ کیمپ میں اپنے فرائض سر انجام دینے لگا، جو پیار، مہرو محبت آواران و مکران کے کیمپوں میں پایا وہی پیار، مہرو محبت شور و پارود کے کیمپ میں پایا، وہی پیار بھرا ماحول وہی سنگتوں کا ہر وقت ہنستا مسکراتا چہرہ وہی اخلاق وہی نیک سیرتی، وہی سیاسی پختگی اور آسمان کے بلندیوں کو چُھوتا ہوا راسکوہ کے چٹانوں کی طرح مضبوط عزم و ارادہ یہاں بھی پایاـ

آخر میں، میں اپنے بلوچ بہنوں، بھائیوں اور بزگوں سے عرض کرونگا کہ ریاستی پروپیگنڈوں میں مت آئیں کیونکہ ریاست کو بلوچ قوم نہیں بلکہ بلوچ سرزمین چاہیئے کیونکہ بلوچ سرزمین جسے دنیا بلوچستان کے نام سے جانتی ہے دنیا کے امیر ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہے، جس میں قدرتی وسائل کا بھرمار ہے سونا، چاندی، تیل، گیس، کالا ہیرا یعنی کوئلہ، کرومائیٹ،سنگ مرمر، گندھک، جپسم وغیرہ جیسے قدرتی معدنیات سے مالا مال بلوچستان ریاست کے آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے جس طرح یورپینز نے ریڈ انڈینز کی نسل کو ختم کرکے امریکہ پر قبضہ کرکے دنیا پر آج راج کر رہے ہیں، اسی طرح ریاست بلوچ نسل کا خاتمہ کرکے، بلوچ سر زمین بلوچستان کا مالک بننا چاہتا ہے اور انکے اس مقصد کے بیچ بلوچ سرمچار سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں ـ

اس دیوار کو توڑنے کے لیئے ریاست نوابوں، سرداروں، میرومعتبروں اور مقامی لالچی، فراڈی، جرائم پیشہ افراد کا سہارا لے رہا ہے کیونکہ مذکورہ لوگ اپنے لالچ کے لیئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں، کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، اور نواب، سردار اور میرومعتبروں کو ڈر ہے کہ مقبوضہ بلوچستان کی آزادی کے بعد انکے پروٹوکول والی حیثیت نہیں رہے گی بلکہ ان کو عام عوام کی طرح رہنا پڑیگا اور جنہوں نے ریاست کے گناہوں میں شریک ہوکر بلوچ جہد کے خلاف کام کیا ہے انکا احتساب ہوگا، اسی ڈر سے وہ خود غدار ہیں اور اَن پڑھ و بےروزگار نوجوانوں کو بھٹکا کر اپنے گروہ میں شامل کرکے بلوچ جہدِ آزادی کے خلاف کام لیتے ہیں ـ

میرا ان بلوچ بھائیوں سے گزارش ہے جو نواب، سردار اور میرومعتبروں کے گروہوں میں ہیں بلوچ قومی تحریک کے خلاف کام کرتے ہیں وہ آستین کا سانپ نہ بنیں بلکہ ان ریاستی دلالوں کو چھوڑ کر بلوچ سرمچاروں کا ہاتھ مضبوط کریں اور ایک آزاد بلوچ ریاست کی جہد کو تیز کر دیں ـ والسلام
بلوچ سرمچار زندہ باد
بلوچ وطن پائیندہ باد