ایک جہدکار کی آپ بیتی
تحریر: فیصل بلوچ
حصہ اول
یہ ایک ایسے سرمچار کی آپ بیتی ہے جو بلوچ جہد آزادی میں شرکت سے پہلے اپنے علاقے کا مشہور ترین لوفر،چور اور ڈاکو تھاـ ہر قسم کے برائیوں میں ملوث تھا، انہی برائیوں کی وجہ سے گھر سے نکال دیا گیا تھا اور جہدِ آزادی میں اپنے مفاد کے لیئے شرکت کی لیکن جہد میں آنے کے بعد اس کی زندگی ہی بدل گئی اسے اس کے زندگی کا مقصد مل گیا، بلوچ سرمچاروں کی زندگی، انکا شعور، انکی احساسِ غلامی، انکی مہر و محبت اور انکے جہد کے ساتھ مخلصی بلوچ عوام کی خدمت دیکھ کر وہ بالکل بدل گیاـ
آئیئے اسکے زبانی انکی آپ بیتی سنتے ہیں ـ
میرا نام سلیم (فرضی نام) ہےـ میں اپنی آپ بیتی لکھ رہا ہوں، جس میں کچھ کرداروں کے نام فرضی ہیں کیونکہ مقبوضہ بلوچستان کے موجودہ حالات ایسے ہیں کہ میں اپنا اور اپنے آپ بیتی کے کچھ کرداروں کے اصلی نام کی جگہ فرضی نام لکھونگا، کوشش کرونگا کہ اپنی آپ بیتی میں، میں جہدِ آزادی سے پہلے کی بے مقصد اور فضول زندگی کو بیان کر سکوں ان لوگوں کا ذکر کروں جو غیر محسوسانہ انداز میں نواب، سردار اور میر معتبروں کے جھانسے میں آکر ان کے دیئے ہوئے لالچوں اور بلیک میلنگ کا شکار ہوکر ایک ایسے گندے ماحول کا حصہ بنتے ہیں، جو سماجی برائیوں کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی جہد کے سامنے رکاوٹ بنتے ہیں ـ
وہ سب پوری سچائی اور ایمانداری سے بیان کروں، جو کچھ میں نے جہدِ آزادی کے کارواں میں شامل ہونے کے بعد دیکھا اور مشاہدہ کیا کیونکہ جو ریاستی پروپیگنڈے ہوتے ہیں، وہ جہدِ آزادی سے باہر کی زندگی میں کافی مضبوط اور سچے لگتے ہیں، جو درحقیقت جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہوتے ہیں اور یہ سب میں نے تب جانا جب خود تحریکِ آزادی کے نرمزاروں، مادر وطن کے بہادر اور سرفروش سرمچاروں کا ہمسفر بنا۔ جو پروپیگنڈہ ریاستی ادارے اور ان کے دلال و چمچے کرتے تھے وہ سب تحریکِ آزادی میں آنے کے بعد میں نے الٹا پایا کیونکہ ریاست کے دلال پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ بلوچ سرمچار کافر ہیں پاکستان مخالف بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں ” را، موساد اور این ڈی ایس ” سے پیسے لیکر بلوچستان میں بد امنی پھیلا رہے ہیں، بلوچ عوام کو بے گناہ قتل کرتے ہیں، اپنے کیمپوں میں عیاشیاں کرتے ہیں شراب، شباب اور کباب کے مزے اُڑاتے ہیں، لیکن جب میں نے جہدِآزادی بلوچستان میں شامل ہوا تو سب کچھ میرے سامنے کھل کر آگیا کہ کون عیاشیاں کرتا ہے اور کون جہد کرتا ہے۔
میں ریاستی فوجی افسران، سردار اور میر و معتبروں کی عیاشیاں اپنے آنکھوں سے دیکھ آیا تھا میں اور بلوچ جہدکاروں کی غریبی اور مفلسی دیکھ رہا ہوں اور ریاستی فوسسز کا ظلم و ستم بھی دیکھ رہا ہوں، کوشش کرونگا ان سب کا ذکر کروں ـ
میں مقبوضہ بلوچستان کے حسین و جمیل وادی شال (کوئٹہ) کا رہنے والا ہوں، وہ کوئٹہ جو شہید امیر بخش سگار، شہید مجید ثانی ،شہید شکور جان،شہید گزین قمبرانی، شہید سلمان قمبرانی، شہید محی الدین، شہید نصیر جان عرف واجہ اور سینکڑوں بلوچ شہداء کا دیار ہےـ
2008ء میں جب میں لڑکپن میں نے قدم رکھا، تو اپنے آس پاس ایک مفاد پرست دنیا پایا، پہلا مشاہدہ میں نے اپنے گھر سے شروع کیا، میرے والد کے تین بھائی ہیں اور انکا چوتھا اور سب سے چھوٹا بھائ میرے والد ہیں۔ ٹوٹل چار بھائی ہیں لیکن چاروں کے چار ایک دوسرے کے خلاف ہیں ـ ایک بڑے سے حویلی میں مشترکہ طور پر چار خاندان کے رہتے ہوئے بھی ہمیں ایک خاندان نصیب نہیں ہواـ ایسا خاندان جو مثالی کہلائے، ایک ایسا خاندان جس میں سب ایک دوسرے کے دکھ درد سے واقف ہوں۔ اس جسم کے مانند جس میں چوٹ ہاتھ پہ لگے مگر تکلیف پورے جسم کو ہو، جس سے چوٹ ہاتھ پہ لگے مگر زخم دل پہ لگے تب خاندان کہلاتا ہے، مگر ہم ان احساسات سے کوسوں دور تھےـ
گھرمیں ہر وقت تو تو میں میں کا ماحول تھا گھر کے ماحول سے مثبت سبق نہ ملنے کی وجہ سے میں غلط رستے لگ گیا۔ میری سوسائٹی بدل گئی، محلے کے غلط لڑکوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع ہوگیا، پہلے پہل ان لڑکوں نے مجھے سگریٹ پلانا شروع کردیا، گندی گندی باتیں سکھادیں ـ پھر ہلکی پھلکی چوریاں شروع کردی کیونکہ سگریٹ خریدنے اور بازار میں جاکر ہوٹلوں میں فلمیں دیکھنے کے لیئے پیسے جو چاہیئے تھےـ
پھر میں نے سکول سے بھاگنا شروع کردیا، صبح سکول جاتا چند پیریڈز کے بعد سکول کی چاردیواری پھلانگ کر بھاگ جاتا اور پھر آہستہ آہستہ سکول سے غیر حاضر ہونے لگا ایک وقت تھا میں سکول کے امتحانوں میں پوزیشن ہولڈرز میں شمار ہوتا تھا لیکن غلط سنگت اور سکول سے بھاگنے کی وجہ سے میرا رزلٹ خراب آیا، تب گھر والوں کو شک ہوگیا کہ ایک پوزیشن ہولڈر لڑکا فیل کیسے ہوگیا پھر میرا رزلٹ کارڈ دیکھا گیا جس میں مضامین کے نمبروں کے ساتھ ساتھ میرے اٹینڈس کے نمبر کافی کم تھے، جب رزلٹ کارڈ نے میری ساری پول کھول دی تو ابو نے مجھے پکڑ لیا، پہلے تو پیار سے پوچھتا رہا لیکن میرے کچھ بھی نہ بتانے پر مجھے مارنا پیٹنا شروع کردیا، میں پھر بھی ڈھیٹ بنا رہا مجبوراً مجھے چند دن کے لیئے گھر میں بند کردیا گیا، میرے گھر سے نکلنے پر پابندی لگادی گئی ـ
کافی منت سماجت، وعدوں قسموں کے بعد مجھے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت تو مل گئی لیکن باہر گھومنے پھرنے کے اوقات مخصوص و محدود کر دی گئی، ان مخصوص و محدود اوقات میں بھی میری خفیہ نگرانی ہوتی تھی لیکن سب کچھ جان کر انجان بنا رہا کہ انکے نگرانی کا مجھے کچھ پتہ پتہ نہیں، چند مہینوں کی نگرانی کے بعد جب گھر والوں کو یقین ہوگیا کہ میں سدھر گیا ہوں تو انھوں نے پابندی و نگرانی ہٹادی اب میں پھر سے آزاد تھاـ
چند دنوں بعد میں دوبارہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل گیا، اب گھر والوں کا غصہ، والد کی پٹائی اور گھر سے باہر نکلنے کی پابندی کا بدلہ لینا چاہتا تھا، جس کے لیئے میں خالی سگریٹ کے ساتھ چرس بھی پینے لگا، ہلکی پھلکی چوری سے نکل کر بڑی بڑی چوریاں کرنے لگا بھیڑ، بکری اور موٹر سائیکلیں چوری کرنے لگا، جس میں میرے دوست میرا بھر پور ساتھ دے رہے تھےـ
چرس پیتے پیتے ایک دن دوستوں نے مجھے شراب پلا دیا، اس دن ایک دوست کے بھائی کی شادی تھی، تو تمام دوستوں نے فیصلہ کیا کہ مہندی کی رات شراب پی کر خوب ہلا گلا کرینگےـ میں شراب پینے کا مخالف تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ شراب کے نشے میں انسان اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا کیونکہ اتنے وقت کی سنگتی میں، میں نے کئی شرابیوں کو دیکھا تھا، جو شراب پینے کے بعد آپس میں لڑ پڑتے، ایک دوسرے کو گندی گندی گالیاں بکتے، جب نشہ اتر جاتا تو پھر معزز شہری بن جاتےـ
میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود مہندی کی رات میرے دوستوں نے شراب کا اہتمام کردیا لیکن میں نے صاف صاف بتا دیا کہ میں شراب نہیں پیونگا، دوستوں نے بھی بولا ٹھیک ہے تم صرف چرس پیو، شراب ہم پیئنگے پھر شام کو محفل سجی شرابی شراب پینے لگے اور میں چرس کے ساتھ لگا رہا، جب دوستوں کو لگا کہ میں چرس کے نشے میں اتنا دھت ہوں کہ اگر اب مجھے زبردستی شراب پلا دی جائے تو میں مزاحمت نہیں کر سکونگا، تو انہوں نے ایسا ہی کیا، مجھے ایک دو پیگ شراب زبردستی پلادی پھر میں خود پینے لگا، اس رات ہم نے اتنا شراب پیا کہ ہم اپنے پیروں پہ کھڑے نہیں ہوسکتے تھے ـ
بڑی مشکل سے گرتے پڑتے لڑکھڑاتے شادی میں پہنچ گئے اور شادی میں پہنچتے ہی لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے لگے شادی میں آئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ چھیڑخانی کرتے ہوئے ایک لڑکی کو چھیڑ دیا، جو کہ ہمسائیوں میں سے تھی، شادی میں ناچ رہی تھی کہ ہمارے ایک دوست نے جاکر اسکا ہاتھ پکڑلیا اور لڑکی ڈر کے مارے چلانے لگی، اس بات پہ اتنا شور شرابہ ہوا کہ لڑکی کے گھر کے سارے مرد وہاں جمع ہوگئے اور حقیقت جاننے کے بعد ہمارے دوست کو پیٹنے لگے، اپنے دوست کو پٹتے دیکھ کر ہم سے رہا نہیں گیا، ہم بھی لڑائی میں شریک ہوگئے اور ایسی لڑائی شروع ہوگئی کہ شادی کی ساری رونقیں تباہ و برباد ہوگئے، کافی خون خرابہ ہوا سارے مہمان ہمیں اور ہمارے دوست کے گھر والوں کو برا بھلا کہتے ہوئے شادی کی شادمانے چھوڑ کر قبائلی جرگے میں فیصلے کی دھمکی دیتے ہوئے چلے گئےـ
ہم سارے دوست نشے میں تھے، ہمیں احساس بھی نہیں تھا کہ ہم نے کیا کر دیا ہے۔ شادی کی ساری خوشیاں ہماری وجہ سے غرق ہو گئے تھے، دوست کے والد نے پولیس کو فون کر کے بلایا اور ہمیں پولیس کے حوالے کردیا گیا، جہاں کچھ دیر پہلے شادی کی خوشیاں تھے، گانے بج رہے تھے، بچیاں ناچ رہے تھے، وہاں اب ماتم کا سماں تھاـ
تھانہ لے جاکر پولیس نے ساری رات ہماری خوب پٹائی کردی، پھر 15 دن تک ہم پولیس تھانے کے لاک اپ میں بند رہے کوئی ہمیں چھُڑوانے نہیں آیا، پتہ نہیں علاقے کے میر کو کیسے پتہ چلا کہ برے کردار کے کچھ لڑکے تھانے کے لاک اپ میں بند ہیں اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، تو اس نے اپنے چند لوگ تھانے بھیج کر SHO کو اپنے بیٹھک بلوایا جو کہ ایک پنجابی تھاـ ایس ایچ او کو بلا کر پتہ نہیں میر صاحب نے کیا باتیں کی کہ رات دس بجے ایس ایچ او واپس تھانے آکر سنتری کو حکم دیا کہ میر صاحب کے بندوں کو رہا کردو، لاک اپ سے نکالنے کے بعد ہمیں ایس ایچ او اپنی گاڑی میں بٹھا کر سیدھا حمام لے گیا، ہماری شیو کروا کر بال بنوائےـ
وہاں صفائ ستھرائ اور غسل کے بعد ہمیں SHO پھر سرینہ ہوٹل لے جاکر بھرپور ڈنر کروایا، ہم سب دوست حیران و پریشان تھے کہ ایس ایچ او کو کیا ہوا ہے، جو کل تک ہمیں لاک اپ میں بند کر کے مارتا پیٹتا گندی گندی گالیاں بَکتا رہا اور آج اچانک اتنا مہربان کیسے بن گیا کہ اپنے خرچے پہ ہمارا شیو کروایا، بال بنوایا سرینہ جیسے مہنگے ہوٹل میں شاہانہ ڈنر کروارہا ہے، معاملہ کیا ہے؟ کہیں ہمیں جان سے مارنے کا ارادہ تو نہیں کیونکہ بکرے کو ذبح کرنے سے پہلے خوب کھلایا پلایا جاتا ہےـ
خیر کھانے پینے سے فارغ ہونے کے بعد SHO ہمیں گاڑی میں بٹھا کر ایک انجان رستہ پکڑ لیا جب انجان رستے کو دیکھا تو ہمارا شک یقین میں بدل گیا کہ آج ہم تو گئے، آدھا گھنٹہ سفر کرنے کے بعد تقریباً رات ایک بجے ایک عالیشان بنگلے کے سامنے آکر SHO نے گاڑی روک دی جو کہ خود ڈرائیونگ کر رہا تھاـ ہمیں گاڑی سے اتار کر بنگلے سے منسلک ایک بہت بڑے اور خوبصورت حال میں لے گئے جو کہ میر صاحب کا بیٹھک تھا، کافی سجایا ہوا خوبصورت اور مہنگے قالین بچھے ہوئے تھےـ گلدانوں میں مصنوعی مگر خوبصورت و دلکش چمکتے پھول، مہنگے صوفے شیشے کے ٹیبل اور ٹیبلوں کے ستون ہاتھی کے دانتوں کے بنے ہوئے تھےـ ایک بہت بڑا الماری جس میں امپورٹنٹ شراب کی بوتلیں سلیقے سے سجائے ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیاـ
صوفے پہ بیٹھے میر صاحب کے سامنے ٹیبل پہ بلیک لیبل شراب کی بوتل رکھی ہوئی تھی اور وہ ہمارے انتظار میں بیٹھا ہوا ہمیں دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوگیا اور ایک ایک کرکے ہم چاروں دوستوں کو گلے لگا رہا تھا، حال احوال کے بعد SHO کو نوٹوں کا بنڈل تھما کر رخصت کر دیا، پھر ہمیں بٹھا کر اس مہنگے بوتل سے شراب پلانے لگا، اس دوران گپ شپ ہوتی رہی اور میر صاحب نے ہمیں اپنے گروہ میں کام کرنے کی پیشکش کردیا، جو ہم نے بغیر سوچے سمجھے قبول کرلیا، شراب پیتے گپ شپ لگاتے ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ فجر کی اذانیں شروع ہوگئیں، پھر میر صاحب اٹھ کر بولا تم لوگ سوجاؤ باقی باتیں کل کرلیں گے بیٹھک کے اوپر والے کمرے میں ہمارے لیئے بسترے بچھادیئے گئے تھے جہاں جاکر ہم سو گئےـ
جب میر کا بندہِ خاص ہمیں جگانے آیا تو اس وقت دن کے دو بج رہے تھے، میر صاحب کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا کر ہم اپنے اپنے گھروں کو نکل گئےـ میں گھر جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ میں اتنے دنوں سے گھر نہیں گیا حال حوال بھی نہیں ہوا ہے، گھر والے میرے لیئے پریشان ہونگے مجھے دیکھتے ہی انکے جان میں جان آئے گی، یہ سوچتے سوچتے جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا ابو کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی: “خبردار! جو میرے گھر میں قدم رکھا، اب اس گھر میں تیرے لیئے کوئی جگہ نہیں، جہاں جانا ہے جاؤ، دوبارہ یہاں کا رخ مت کرنا۔” ماں اور بہنیں ابا کی منت سماجتیں کرنے لگی کہ سلیم اتنے دنوں بعد گھر آیا ہے پولیس کے حراست میں رہا ہے اسے آنے دو، گھر میں اس کی حال پرسی کریں انکے زخموں پر مرہم لگائیں لیکن ابا جان غصے میں تھا کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھا۔ مجبوراً مجھے گھر سے نکلنا پڑا اور سارا دن ادھر گھومتا رہا۔ پلان سوچتا رہا کہ رات کہاں گزار دوں، کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ میر صاحب کے پاس چلا جاؤں اور اسے ساری حال حقیقت بتادوں ـ
شام کو میر صاحب کے گھر پہنچا میر نے پوچھا کیا ہوا تو میں نے اپنی ساری داستان سنادی، میر بولا کوئی بات نہیں اسے اپنا گھر سمجھ لو، پھر میں میر کا باڈی گارڈ بن کر ان کے ساتھ رہنے لگا، ایک مہینے بعد میر مجھے بولا میں تمھیں خضدار بھیج رہا ہوں، اپنے خاص دوست کے پاس وہ جو کچھ بولے وہی کرنا، میں کچھ دنوں کے لیئے دبئی جا رہا ہوں، پھر ہم پانچ بندے خضدار آگئے، جس میر کو ملنا تھا، وہ میر زیب زہری جس کے ساتھ ہم نے بندوق اٹھا کر چوری اور ڈکیتیاں شروع کردیں ـ
حب سے لیکر کوئٹہ تک شفیق مینگل اور زیب زہری نے لوٹ مچادی تھی، چھوٹے گاڑیوں سے لیکر بڑے ٹینکروں تک، سب کچھ لوٹ لیتے ـ نیٹو کے ٹالروں کو مارنا لوٹنا ہمارا روز کا کام تھا، پاکستانی سرکار اور فوج نیٹو سے ڈالر لیتے تھے، نیٹو کنٹینرز کو زمینی راستہ فراہم کرنے کیلیئے اور اوپر سے اپنے پالے ہوئے چور اور ڈاکوؤں کو انہیں مارنے اور لوٹنے پہ لگا دیتےـ
کئی بار ہم نے ٹوڈی گاڑیاں لوٹنے کے بعد گاڑیوں میں موجود خواتین کی بے حرمتی کرتے، ان کے ساتھ بدفعلی کرتے کیونکہ ہمیں مکمل چھوٹ ملی تھی، میر زیب زہری کے سر پہ سردار ثناء اللہ زہری کا ہاتھ تھا، جبکہ ثناء زہری اور شفیق مینگل کے سر پہ پاکستانی فورسسز اور خفیہ اداروں (ISI اور MI) کا ہاتھ تھاـ
ایک بار ہم زیب زہری کے ساتھ تھے تو کچھ لوگ میر زیب کو ملنے آئے، وہ سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے لیکن مسلح شخص نقاب لگائے ہوئے تھے، شلوار کے پانچے چڑھے ہوئے تھے، جب نقاب اتارے تو سب داڑھی والے تھے، میں حیران پریشان انکو دیکھ رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں، تو وہاں موجود ایک دوست نے بتایا، یہ داعش اور طالبان کے لوگ ہیں، انہیں کرنل تنویر نے بھیجا ہے، یہ لوگ زیب زہری اور شفیق مینگل کے ساتھ مل کر بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف کام کریں گےـ
میں نے پوچھا بلوچ آزادی پسندوں نے انکا کیا بگاڑا ہے جو انکے خلاف کام کرینگے؟ دوست نے بتایا کہ بلوچ آزادی پسند “را، موساد اور این ڈی ایس ” کے ایجنٹ ہیں جو مذکورہ ایجنسیسز سے پیسے لیکر پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں، بلوچستان میں بدامنی پھیلاتے ہیں بے گناہ لوگوں کو مارتے اور قتل کرتے ہیں ـ
آزادی پسندوں کے کیمپوں میں عیاشیاں ہوتی ہیں، روز شراب،شباب و کباب کے مزے اڑائے جاتے ہیں ـ آزادی کے نام پہ چوریاں اور ڈکیتیاں کرتے ہیں، لوگوں کے گھروں میں گھس کر انکے عورتوں اور بچیوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں ـ جب یہ سب کچھ میں نے سنا تو میرا دل چاہا کہ کاش میں بھی سرمچاروں کے کیمپ میں ہوتا، وہاں اپنی مرضی سے چوریاں اور ڈکیتیاں کرتا شراب، اور کباب کے مزے اڑاتا کیونکہ یہاں آنے سے پہلے کوئٹہ والے میر نے ہمیں قیمتی شراب پلادیئے تھے لیکن جب سے زیب زہری کے پاس آئے تھے، ہماری زندگی کتے جیسی ہوگئی تھی، نہ اچھا کھانا ملتا اور نہ اچھی شراب اور میر و معتبر تو ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے، ہروقت گندی گندی گالیاں بکتے رہتے ہیں، ہماری ماں بہن کی کوئی عزت ہی نہیں تھی یہاں ـ ہم جو چوریاں اور ڈکیتیاں کرتے، ان میں سے ایک روپیہ بھی ہمیں نہیں ملتا، بات کرنے اور پوچھنے کی گنجائش نہیں تھی، ورنہ مارنے اور انجان جگہ پہ دفنانے کی دھمکی ملتی تھی ـ کبھی کبھی خود سے کہتے تھے کہ تم لوگوں کا کھانا، پینا، اوڑھنا بچھونا اور پناہ دینا سب ہمارے ذمہ ہے، اگر ہم نہ ہوتے تو یہ پولیس اور سیکیورٹی ادارے کب کا تم لوگوں کو ختم کردیتے اس لیئے کھاؤ پیو اور خاموش رہوـ
چوری اور ڈکیتیوں کی ساری کمائی زیب زہری اور ایف سی میجروں کے بیچ تقسیم ہوتے، اگر لوٹے ہوئے گاڑیوں یا پھر خانہ بدوشوں سے کوئی عورت و لڑکی ہاتھ لگتی تو وہ بھی زیب زہری،ایف سی کے آفیسروں اور ان میر و معتبروں کے نائیبین میں تقسیم ہوتے، ہمیں کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا، ہم بس انکے لیئے چوریاں اور ڈکیتیاں کرتےـ
ایک دن ایف سی کا ایک آفیسر آیا، زیب زہری اور چند میر و معتبروں کے ساتھ میٹنگ کیا اور چلا گیا اس کے جانے کے بعد ہمیں حکم ملا کہ فلاں سیٹھ کو اغواء کر لو، جب ہم نے سیٹھ کو اغواء کر لیا تو اسکے رہائی کی قیمت اس کے گھر والوں کے ساتھ ایک کروڑ روپے لگادی گئی، پھر یہ اغواء کا سلسلہ چل نکلا پہلے پہل پیسے والے لوگوں کو اغواء کرنا یا انکے گھر کا کوئی فرد اٹھانا، تاوان میں پیسے لینا یا اپنے من پسند یا خفیہ اداروں کے مفادات کے لیئے ان سے کام لینا رہا، پھر ایک نائب کے زبانی پتہ چلا کہ زیب زہری اور ایف سی کے بیچ جو میٹنگ ہوئی تھی، وہ اسی مقصد سے ہوئی تھی، پھر اغواء برائے تاوان کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے اغواء کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، پھر چند نوجوانوں کی لاشیں پھینک دیئے گئے اور باقی کا ہمیں بھی پتہ نہیں چلا کہ کہاں گئے، زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیاـ
جن لوگوں کو اغواء کیا جاتا، جو تشدد ان پر کیا جاتا تھا زیب زہری اور ثناء زہری کے ٹارچر سیلوں میں وہ انسانیت سوز تھے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ ڈاکٹر اللہ نذر اور استاد اسلم کے دہشت گرد ہیں، جو بے گناہ اور معصوم لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں پھر یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا، ادھر ہمیں روز ایف سی و آرمی کی جانب سے مبارک بادیں مل رہیں تھیں کہ ہم اسلام و پاکستان کے لیئے جہاد فی سبیل اللہ کر رہے ہیں، مالک شاہوزئی اور فضل مجاہد اغواء، چوری،ڈکیتی اور مختلف سماجی برائیوں میں پیش پیش تھے، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہم جن نوجوانوں کو چن چن کر اغواء کرکے ان درندوں کے ہاتھ میں دے رہے ہیں یہ ہمارے مستقبل کے چراغ ہیں، ہمارے چی گوویرا،فیڈل کاسترو،لینن، ہمارے بھگت سنگھ ہیں یہ وہ ہیرے ہیں جنہیں ہم نادانی میں ضائع کر رہے ہیں، جنہیں ہم ملک دشمن سمجھ رہے ہیں اصل میں مادرِ وطن کے رکھوالے یہی انمول موتیاں ہیں ـ
جب ہمارے ظلم و ستم عروج پر پہنچے، تب سرمچاروں کی کارروائیاں بھی کافی تیز ہوگئیں، اسی دوران خضدار میں عمر فاروق چوک پر فضل مجاہد بی ایل اے کے سرمچاروں کے ہاتھوں مارا گیا، پھر مقبوضہ بلوچستان کے مختلف شہروں، گلی کوچوں میں سرمچاروں کی کارروائیاں عروج پر پہنچ گئیں، جب میں نے دیکھا کہ یہ سرمچار تو میر معتبر تو کیا ایف سی، آرمی اور پاکستانی خفیہ اداروں پہ بھاری پڑ رہے ہیں، تو مجھ میں یہ جستجو بڑھ گیا کہ میں ان تنظیموں میں کیسے شرکت کرکے دیکھ لوں کہ ان دہشت گردوں کو پاکستان مخالف ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بقول میر صاحب( را، موساد اور این ڈی ایس) ایسا کونسا اسلحہ ایسی کونسی ٹریننگ ایسا کونسا خوراک ایسی کونسی لالچ دے رہے ہیں کہ یہ اپنے جان کی پرواہ تک نہیں کرتے اور ہر اس خطرناک کام کو نارمل انداز میں انجام دیتے ہیں ـ
اتنی سخت سیکیورٹی میں ہر طرف سرداروں، میر و معتبروں کے چمچوں کے آنکھوں کے سامنے انکے بیچوں بیچ اپنی کارروائی کر کے نکل جاتے ہیں کہ کسی کو پلک جھپکنے کے بعد نظر ہی نہیں آتےـ
(جاری ہے)