انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ، چین اور روس ’’عدم استحکام کی قوتیں‘‘ قرار

117

امریکہ نے شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ ساتھ چین اور روس کو ’’عدم استحکام کی قوتیں‘‘ قرار دیا ہے، چونکہ انسانی حقوق کے حوالے سے اُن کا ریکارڈ اِسی نوعیت کا ہے۔

انسانی حقوق کی سالانہ عالمی رپورٹ جمعے کے روز جاری کی گئی۔ امریکی محکمہٴ خارجہ نے چاروں کا شمار اُن ملکوں میں کیا ہے جہاں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، جس ضمن میں اظہار کی آزادی اور مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے تحفظ کے معاملات کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔

قائم مقام وزیر خارجہ، جان سلیوان نےاپنے تعارفی کلمات میں بتایا کہ یہ چار ملک ’’روزانہ کی بنیاد پر اپنی ہی سرحدوں کے اندر رہنے والوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہوتے ہیں‘‘۔

سلیوان نے کہا کہ ایسے ملک جو آزادی اظہار اور اپنے ہی شہریوں کے مذہبی، نسلی اور اقلیتی گروپوں کے خلاف تشدد کی اجازت دیتے ہیں، جو بات ’’انتہائی قابل مذمت اور ہمارے مفادات کے خلاف ہے‘‘۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قابل معافی گردانتا ہے، ایسے مجرموں کو سزا دینے کے بجائے اُنھیں ڈھیل دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں روسی حکومت کو ’’مطلق العنان سیاسی نظام ‘‘ بتایا گیا ہے، جس میں ’’صدر ولادیمیر پوٹن‘‘ کو فوقیت حاصل ہے۔

چین کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت لوگوں کو من مانے طور پر زیر حراست لیتی ہے، پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے اور زبردستی لاپتا کردیا جاتا ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت نے تقریر، مذہب اور تحریک کی آزادی پر ’’خاصی پابندیاں‘‘ عائد کر رکھی ہیں۔

رپورٹ میں برما میں روہنگیا اقلیت کے خلاف کیے جانے والے تشدد کی بھی مذمت کی گئی ہے۔

سلیوان نے جمعے کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا کہ برما کے بحران کو حل کرنے کے لیے امریکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جس بحران میں ہزاروں روہنگیا مسلمان اپنا ملک چھوڑ کر بھاگ نکلے ہیں، جس سے قبل روہنگیا شدت پسندوں کے خلاف حکومت نے کارروائی کی تھی۔

اقوام متحدہ نے برما پر اپنی ہی آبادی کے خلاف مربوط حملوں کا الزام لگایا ہے، جسے عالمی ادارے نے ’’نسل کشی‘‘ قرار دیا ہے۔

سلیوان نے کہا کہ ’’خلاف ورزیوں، بدسلوکی اور حملوں کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے‘‘۔

شام کے بارے میں بات کرتے ہوئے، سلیوان نے کہا کہ ’’ساری دنیا شام میں ہونے والی انسانی حقوق کی بہیمانہ خلاف ورزیوں سے آگاہ ہے، جہاں اپنے ہی شہریوں پر ’بیرل بم’ برسائے جاتے ہیں؛ اسپتالوں پر حملے کیے جاتے ہیں اور حکومت شام کے اہل کاروں کے ہاتھوں زنا اور بدسلوکی کی بیشمار اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں‘‘۔

جمعے کو جونہی یہ رپورٹ جاری ہوئی، انسانی حقوق کے گروپوں نے اس پر نکتہ چینی کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ اُنھوں نے اس جانب دھیان مبذول کرائی کہ اس میں ’تولیدی حقوق‘ سے متعلق رپورٹیں شامل نہیں کی گئیں۔ سال 2012ء سے اب تک یہ پہلا سال ہے جب رپورٹ میں تولیدی حقوق کا سیکشن شامل نہیں کیا گیا، جس عنوان کو سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے شامل کیا تھا۔

انسانی حقوق کے ادارے، ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے کہا ہے کہ ’’تولیدی حقوق در اصل انسانی حقوق ہی ہیں، اور اس معاملے کو شامل نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ’ہیومن رائٹس‘ کے معاملے پر عالمی قیادت سے دستبردار ہو رہی ہے‘‘۔

گروپ نے الزام لگایا ہے کہ امریکی اتحادیوں سعودی عرب اور ترکی کی حکومتوں پر انصاف کی رو سے تنقید نہیں کی گئی۔