افغانستان: 2018 کے پہلے سہ ماہی میں ریکارڈ بمباری

297

پینٹاگان کے اعداد و شمار کے مطابق، افغانستان میں گذشتہ 15 برسوں کے دوران سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران کبھی اتنے بم نہیں گرائے گئے جتنے امریکی قیادت والے اتحاد نے 2018ء کے پہلے تین مہینوں میں گرائے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والے تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گذشتہ اگست میں جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ملک کے لیے اپنی نئی دفاعی حکمت عملی کا اعلان کیا، بم حملوں میں آنے والا یہ اضافہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ 17 برس پرانی افغان لڑائی میں تیزی آتی جا رہی ہے۔

امریکی فضائی افواج کی مرکزی کمان کی جانب سے جاری کردہ اعداد کے مطابق، 2018ء کے پہلے تین ماہ کے دوران اتحادی لڑاکا طیاروں نے افغانستان میں 1186 بم گرائے۔ اس ضمن میں پچھلا ریکارڈ 2011ء کا ہے جب لڑائی زوروں پر تھی اور 1083 بم گرائے گئے تھے۔ امریکہ نے سنہ 2001 اور 2003 کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔

اِن اعداد میں وہ ڈیٹا شامل نہیں ہے جو کارروائیاں افغان فضائی فوج (اے اے ایف) کرتی رہی ہے، جس نے دو برس قبل فضائی حملوں کی صلاحیت حاصلہ کی تھی، جس کے بعد فضائی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ افغان وزارتِ دفاع کے مطابق، افغان ایئر فورس روزانہ 4 سے 12 فضائی کارروائیاں کر رہی ہے۔

اگر حالیہ رجحان جاری رہتا ہے، تو اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ 2018ء کا باقی سال اس سے بھی زیادہ پُرتشدد ہو سکتا ہے۔ عام طور پر لڑائی اُس وقت زور پکڑتی ہے جب موسم گرم ہوتا ہے، جب کہ اتحاد نے داعش کے گروپ کے ساتھ ساتھ منشیات کے کارخانوں اور طالبان کی آمدن کے دیگر ذرائع کے خلاف بم حملوں کے سلسلے کو وسیع کر دیا ہے۔

تعطل

لیکن، اس بات کا کم ہی اشارہ ملتا ہے کہ فضائی کارروائی کو وسیع کرنے سے تنازع کا خاتمہ ہوگا۔ یہ بات افغان امور کے ماہر، ٹھامس جانسن نے کہی ہے جو کیلی فورنیا کے شہر، مونٹیری میں بحریہ کے پوسٹ گریجوئیٹ اسکول میں قومی سلامتی کے امور کے استاد ہیں۔

جانسن کتاب ’طالبان نیریٹوز: دی یوز آف پاور اینڈ اسٹوریز اِن دی افغانستان کنفلکٹ‘ کے مصنف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بنیادی طور پر یہ مایوسی کا عمل ہے۔ تاریخ میں کہیں بھی کسی بغاوت کا خاتمہ فضائی طاقت کے استعمال سے حاصل نہیں کیا گیا‘‘۔

یہاں تک کہ اعلیٰ سطحی امریکی فوجی حکام بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تنازع میں تعطل جاری ہے۔

امریکی فوج کے تازہ ترین اندازے کے مطابق، حکومتِ افغانستان کو ملک کےمحض 56 فی صد اضلاع پر کنٹرول حاصل ہے، جب کہ باغی باقی علاقے پر قابض ہیں یا پنجہ آزمائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

سرکش حملے بھی جاری رہے ہیں۔ اتوار کے روز کابل میں انتخابی شناختی کارڈ کی تقسیم کے مرکز پر داعش کے خودکش حملے میں تقریباً 60 افراد ہلاک ہوئے۔ طالبان نے اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو ’’جعلی‘‘ اور ’’قابض بیرونی افواج‘‘ کی حرفت قرار دیا ہے۔

شہری ہلاکتیں

تنازعے میں شہری آبادی کی ہلاکتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق، 2018ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران، متواتر دوسرے سال، شہری آبادی کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ جاری رہا۔ جنوری سے مارچ تک، 763 شہری ہلاک جب کہ 1495 زخمی ہوئے۔

عالمی ادارے نے بتایا ہے کہ شہری آبادی کی زیادہ تر ہلاکتیں باغیوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے ہوئیں، جب کہ فضائی کارروائیوں کے باعث بھی 67 افراد ہلاک جب کہ 75 زخمی ہوئے۔

شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے کے واقعات پر افغان برہم ہیں، جیسا کہ اپریل کے اوائل میں افغان ایئر فورس نے شمالی قندوز میں واقع ایک دینی مدرسے میں مشتبہ طالبان کو نشانہ بنایا، جس میں درجنوں شہری ہلاک ہوئے۔

افغان حکام نے کہا ہے کہ حملے میں 30 طالبان عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔ لیکن، ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں میں عینی شاہدین اور مقامی اہلکاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ہلاک شدگان کی اکثریت شہری آبادی پر مشتمل ہے۔

امن مذاکرات

پُرتشدد کارروائیوں میں یہ اضافہ ایسے وقت آیا ہے جب افغان صدر اشرف غنی نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ سیاسی دھارے میں شامل ہوں اور آئندہ انتخابات میں شرکت کریں۔

فروری میں، غنی نے تجویز پیش کی تھی کہ بغیر پیشگی شرائط کے طالبان امن مذاکرات میں شامل ہوں۔ طالبان نے ابھی تک اشرف غنی کی اس پیش کش کا کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا۔

تاہم، جانسن کی طرح کے تجزیہ کاروں نے غنی کی پیش کش کو سراہا ہے، جن کا کہنا ہے کہ لڑائی کا کوئی فوجی حل موجود نہیں۔

بقول اُن کے، ’’اگر آپ کو پرواہ نہیں اور آپ موجودہ فضائی کارروائی کو دوگنا بڑھا بھی دیتے ہیں، پھر بھی۔ ہم فوجی اقدام سے یہ لڑائی کبھی نہیں جیت سکتے۔ اِس کا صرف ایک ہی حل ہے، اور وہ ہے سیاسی حل‘‘۔