احسان اللہ احسان کو تحویل میں رکھنے کا حکم : پشاور ہائی کورٹ

389

پشاور ہائی کورٹ نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کو تحویل میں رکھنے اور ٹرائل جلد مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور میں 2014 میں جاں بحق ہونے والے بچوں میں سے ایک بچے کے والد فضل خان ایڈووکیٹ نے احسان اللہ احسان کی بریت روکنے کے حوالے سے درخواست دائر کی تھی جسے عدالتِ عالیہ نے نمٹا دیا۔

احسان اللہ احسان کی بریت کے خلاف دائر درخواست پر جسٹس قیصر رشید اور جسٹس اکرام اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے احسان اللہ احسان کو تحویل میں رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ان کا ٹرائل جلد شروع کرنے کا بھی حکم دیا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ احسان اللہ احسان نے اے پی ایس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، تو اس صورت میں والدین اسے معاف کرسکتے ہیں لیکن حکومت اسے معاف نہیں کرسکتی۔

یاد رہے کہ سانحہ اے پی ایس میں جاں بحق ہونے والے بچے کے والد نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سابق ترجمان ٹی ٹی پی نے اے پی ایس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

فضل خان ایڈووکیٹ نے انکشاف کیا تھا کہ حکومت ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان کو مبینہ طور پر رہائی دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جس نے خود کو مبینہ طور پر سیکیورٹی ایجنسی کے حوالے کیا تھا اور وہ اس وقت سیکیورٹی اداروں کی ہی تحویل میں ہیں۔

درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ احسان اللہ احسان کو بچوں کو قتل کرنے اور ظلم ڈھانے پر انہیں معافی نہ دی جائے۔

اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل مست اللہ خان نے عدالت کو بتایا کہ احسان اللہ احسان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے اور انہیں رہا کرنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس 17 اپریل کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی اداروں کے حوالے کردیا۔

بعدِ ازاں 26 اپریل 2017 کو احسان اللہ احسان کا ویڈیو بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور افغانستان کی ’این ڈی ایس‘ سے روابط ہیں۔

واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول پر تباہ کن حملے میں 144 بچے اور عملے کے ارکان جاں بحق ہوئے تھے جس کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کی تھی اور اُس وقت احسان اللہ احسان اس تنظیم کے ترجمان تھے۔