آو بات کرتے ہیں۔ نود سنگت

338

آو بات کرتے ہیں
نود سنگت

بات کرنا ،بحث کرنا تبادلہ خیال کرنا، گفتگو کرنا، پھر ان خیالات پر تنقید کرنا, ایسی تنقید جس میں تعمیر کا پہلو حاوی ہو. گفتگو بات کرنے کے ڈھنگ کو سلجھاتی ہے، سنوارتی ہے اور نوک پلک کرکے خوبصورت بنا دیتی ہے۔

بات کرنا, تبادلہ خیال کرنا, مکالمہ اور گفتگو ایک ترقی پسند, روشن فکر, ایک تعمیری اور صحت مند سماج کی تشکیل کرتا ہے. جہاں ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت جوان ہو یا بوڑھا اکثریت ہو یا اقلیت کمیونسٹ ہو یا ڈیموکریٹ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے فرد گفتگو کرنے, بات کرنے بحث و مباحثہ کرنے اور اپنے خیالات کا اظہارکرنے سے سماج میں موجود جمود کو توڑتے ہیں۔ خوف اور ڈر کا پردہ فاش کر کے ایک آزاد انسانوں کا سماج تعمیر کرتے ہیں۔ جہاں ادب, ثقافت, سیاسیات, سماجیات اپنے تنگ نظر خول, انتشار, بےچینی, بیگانگی, تنگ نظری اور انتہاپسندی سے نکل کر, پاک ہو کر جدید ترقی پسندانہ سیکولر ماڈرن اور آزاد سماج میں ڈھل جاتا ہے۔

سماج کی ترقی اور ارتقا اس وقت ہوتی ہے، جب سماج میں مکالمہ, مباحثہ, بات کرنے کا رجحان, اظہار خیال, تنقیدی آرا روز مرہ رویوں کا حصہ بن جاتے ہیں. ایسے ماحول میں نت نئی ادبی تحریکیں جنم لیتی ہیں. موسیقی اور آرٹ پرورش پاتے ہیں, ثقافت ترقی کرکے جدید لوازمات اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے. اس طرح سماج ارتقا کی منزلیں طے کرتا ہوا معاشی ترقی اور خوشحالی کی بلندیوں کو چھولیتا ہے. معاشی طور پر خوشحال معاشرہ حقیقی معنوں میں ایک آزاد اور خوشحال سماج تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں ادب, موسیقی, ثقافت, فنون لطیفہ آزادی سے اپنے خدوخال تشکیل پاتے ہیں۔
آج کے بلوچ سماج کا ہم تجزیہ کر لیں اور محسوس کر لیں, تو آپ کیا مشاہدہ کریں گے, کیا نتیجہ اخذ کریں گے؟
بلوچ سماج کہاں کھڑا ہے؟
کیا آپ بات کر رہے ہیں؟
گفتگو ہورہی ہے ۔۔۔
مکالمہ ہو رہا ہے۔۔
تنقید اور خود تنقیدی کے انقلابی اصول کارفرما ہیں؟
ایک ایسا سماج کہ جہاں
اختلاف رائے، اظہار رائے, بات کرنے، بحث کرنے، مکالمہ کرنے، گفتگو کرنے پر اتنی قدغن لگا دی گئی ہو کہ ہر زبان پابند سلاسل, ہر سوچ پہ پہرہ, ہر ذہن پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہوں۔ ہر روشن آنکھ اپنی بصیرت اور بینائی سے محروم ہے، تنقیدی سوچ اور اختلاف رائے گناہ کبیرہ ۔۔
ایسے سماج کا معیار اور پیمانہ کیا ہو گا؟
یہ خوف کیونکر؟
یہ دہشت کس لیئے؟
یہ سفاکیت کب تک؟
بات نہ کرنے ،گفتگو, مکالمہ نہ کرنے بحث اور اصولی اختلاف نہ رکھنے، تنقید اور خود تنقیدی کے آدرشوں کو کسی خاطر میں نہ لانے سے کیا ہوگا؟
ایک ایسا سماج جنم لے گا جس کی شکل بہت ڈراونی ہوگی, بہت خوفناک ۔۔۔۔۔۔
جہاں لاعلمی ،جہالت،انتہا پسندی ،حیوانیت ،درندگی ،غیرانسانی افعال ،تنگ نظری ، تعصبات اپنے عروج پر ہونگی، جو زندہ انسانوں کو زندہ نگلتے ہیں۔
ہم بات کرنے،گفتگو, مکالمہ اختلاف رائے سے اجتناب کیوں کریں؟
تنقید اور اختلاف رائے سے گھبرائیں کیوں؟
مثبت تعمیری بحث سے بھاگنا کیسا؟
آو بات کرتے ہیں, تنقید اور خود تنقیدی کے انقلابی اصول کو اپنا کر اپنے سماج کو، اپنی سیاست کو، اپنی معیشت کو، اپنے ادب آرٹ اپنے قومی اقداراور روایتوں کو جھوٹ کی غلاظت منافقت کی پراگندگی دوغلے پن کی بدبوداریت، تنگ نظری، انتہاپسندی، جہالت،تعصبات،خوف لالچ سے پاک, شفاف کرکے ان کو جدید سائنسی،علمی, فکری، منطقی بنانے ، ادبی, علمی, سیاسی تخلیقی سفر کو جاری رکھنے، یونیورسٹیوں کالجوں ،ہاسٹلوں ،اوتاکوں میں مکالمے, بات کرنے ،گفتگو اور مباحثہ کرنے، تنقید اور خودتنقیدی کے انقلابی آدرشوں کو رائج کرنے، اختلاف سننے برداشت کرنے کےماحول کو دوام بخشنے اور اس کلچر کو فروغ دینے , خوف اور ڈر کی دیوی دیوتاوں کو شکست فاش دینے، بیگانگی، بیزاری، اکتاہٹ ،تھکاوٹ، ذہنی و نفسیاتی الجھنوں کو سمندر برد کرنے اور ایک نیا سویرا ایک نئے سماج کی تعمیر میں جمود کے اس کیفت کو توڑ کر منزل کی طرف اپنے گام تیز تر کرکے اس بحران زدہ اور زوال پذیر معاشرے میں جہاں بات کرنا، اظہار خیال کرنا سیاسی افکار اور نظریہ رکھنا جرم بن چکا ہے تو ایسے سماج میں انکار اور مزاحمت کے اندر استحصال ،جبر، بربریت،نابرابری ،اور غلامی سے آزاد ایک خوشحال بلوچ وطن کی تشکیل کا راز مخفی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زبان اب تک تیری ہے
بول زبان کے کٹ جانے سے
پہلے جو جو کچھ کہنا ہے
بول اگرچہ چند گھڑیاں ہی
اس دنیا میں رہنایے
بول کہ لفظ فضا میں گھل کر
ایک آواز بناتے ہیں
بول کہ اب لفظوں کی گرج سے تخت و تاج ہل جاتے ہیں۔