عورت انسانی اقدار کا بہترین محافظ ہے : تربت سیمینار سے مقررین کا خطاب

884

آٹھ مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کی نسبت سے تربت میں ایچ آر سی پی کے زیر اہتمام ایس پی او اور رہنما فیملی پلاننگ کے اشتراک سے ایس پی او ملا فاضل ہال میں سیمینار منعقد کیاگیا جس میں خواتین اور مردوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
سیمینار سے ایچ آر سی پی اسپیشل ٹاسک فورس مکران کے ریجنل کوارڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ انسانی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے کسی زمانے میں دنیا پر عورتوں کا راج  رہا ہے یہ پدر سری زمانے سے قبل کی بات ہے جب عورت نا صرف گھر کا مالک بلکہ حکمران تھا اور ان کے پاس وہی اختیارات تھے جو آج مردوں کے پاس ہیں ۔عورتوں کی حکمرانی میں جہاں کئی وجوہات ہوسکتی ہیں وہاں پہ معاشی زرائع میں تبدیلیاں اور آہن کی ایجاد کا بہت بڑا کردار ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ مردوں کے مقابلے میں عورت سراپا شائستگی، محبت اور امن کا مجسم ہے ان کے افعال و کردار اورقول و فعل میں کوئی تضاد نہیں بلکہ امن و شائستگی ہے ۔امن کے بغیر دنیا میں تبدیلی اور ترقی نہیں آسکتیعورت امن کا شعار ہے یہ اس کی خاصیت جسے فطرت نے اسے بخشی۔ عورت ذات ہمدردی اور بہتر انسانی اقدار کا محافظ ہے اس کی وجہ سے ہی بہتریں انسانی اقدار موجود ہیں ۔ عورتیں کسی طور پر کمزور نہیں بلکہ ہر وہ کام کرسکتی ہیں جو مرد کرسکتے ہیں البتہ ایسا ضرورہے کہ مرد وہ تمام کام نہیں کرسکتے جو عورتیں کرتی ہیں فطرت نے عورت میں انسانی نسل پروان چڑھانے کا مادہ ودیعت کررکھا ہے انسانی نسل کو بقاء بخشنے میں اہم تریں بلکہ مرکزی کردار عورت ہے اس لیئے عورت کو مرد کے مقابلے میں یہ امتیاز حاصل ہے اور ان کی طاقت کسی مرد کے مقابلے کئی گنا ذیادہ ہے اس لیئے ان کے حقوق بھی مردوں کے مقابلے ذیادہ ہیں اور ہونی چاہیں۔
انہوں نے کہاکہ انسانی حقوق کے عالمی منشور میں عورت اورمرد کے حقوق کا تعین کیاگیا ہے جن میں کئی مشترکہ حقوق کے ساتھ عورتوں کے کئی امتیازی حقوق بھی ہیں ۔دنیا کی تاریخ میں ہزاروں ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے مشکلات میں رہ کر انسانیت کی بہتریں خدمت کے عوض اپنے زاتی حقوق کو کوئی اہمیت نہیں دی وہ تاریخ میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ ہمارے ہاں بھی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک عورتیں ہیں جن کے کام اور کردار کی بلندی پر فخر کی جا سکتا ہے اس کے علاوہ سیاست، سماج ، صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں کئی ایسی قابل فخر عورتیں ہیں جن کی مثال دی جاسکتی ہے ایسی عورتوں میں کریمہ بلوچ، ڈاکٹر نگینہ بلوچ، گوھر ملک، بانل دشتیاری، ذبیدہ جلال ذرجان نصیر سمیت لا تعداد عورتیں ہیں تربت میں بھی نامناسب حالات اور مشکلات کے شکار کئی عورتیں ہیں جو ہر میدان میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں اسی پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ انسانی حقوق کے عالمی رہنما اور معروف شخصیت عاصمہ جہا نگیر جن پر ہمیں فخر ہے انسانی خدمت کے حوالے سے آج بھی زندہ ہیں۔
سیمینار سے ایس پی او کے محراب بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم آج تک عورتوں کے حقوق کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں رسما ایک د ن عورتوں کے لیئے رکھ کر پھر ان کے حقوق سے رو گردانی کرنا اس بات کی غمازی ہے کہ یہ معاشرہ تاحال عورت حقوق کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔8مارچ ہر سال ہم مرد مناتے آرہے ہیں مگر یہ لازمی ہے کہ اگر یہ دن عورتوں کی حقوق کے نام پہ ہے تو وہ خود یہ دن منائیں جس طرح عید، اور دیگر تہواروں پر خوشی کااظہار کیا جاتا ہے اسی طرح 8مارچ کو عورتیں یہ دن اسی طرح منائیں اور اپنی سماجی حیثیت کا اظہار کریں ۔
انہوں نے کہاکہ عورتوں کے عالمی دن کو ایک بیرونی ایجنڈا کہنا پست ذہنیت کی عکاسی ہے یہ دن ایک احساس کا نام ہے جو ہم سے برابری اور عورتوں کے ساتھ انسانی برتاؤ کا تقاضا کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے کو باتوں سے بڑھ کر عورتوں کے معاملے میں سنجیدہ ہو کر سماجی، معاشی و اخلاقی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے حکومت اور حکومتی ادارے سمیت سوشل سیکٹر پر کام کرنے والے ادارے ایسی پالیسیاں مرتب کریں جو عورتوں کے حقوق کو صحیع معنوں میں تحفظ فراہم کرسکیں اور عورتوں میں یہ حقیقی احساس پیدا ہو جائے کہ 8مارچ ان کا دن ہے اور وہ برابری کی بنیاد پر اس معاشرے کا حصہ ہیں۔
سیمینار سے ڈاکٹر نگینہ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچوں کی نسبت پاکستان کے دیگر علاقوں میں عورتیں جبری ہراس منٹ اورذہنی و جسمانی تشدد کے خلاف ذیادہ آواز بلند کرتی ہیں ہمار ے معاشرے میں ابھی تک ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا رجحان پیدا نہیں ہوا ہے ایسا نہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو ہراساں نہیں کیا جاتا یا ان پر تشدد نہیں ہوتا ہمیں اپنے معاشرے میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اس بارے میں میڈیا کو اپنا رول ادا کرنا چاہیے کیوں کہ جب تک سماج میں شعور و آگہی پیدا نہیں ہوگی سماجی سطح پر تبدیلی لانا مشکل ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں گزشتہ آٹھ سے دس سالوں کچھ عرصہ پہلے کی نسبت تعلیم کا ریشو تو بلند ہوا ہے مگر ذہنی پستی اور سوچ کی پسماندگی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں جنسی ہراساں کرنے کے واقعات میں ہوش رہا اضافہ ہورہا ہے ایسے کیسز کا شدت سے سامنے آنا اخلاقی پستی کا اظہار ہے اس بارے میں ہمیں سنجیدہ ہو کر کام کرنا چاہیے۔
سیمینار سے فضیلہ عزیز، شہناز شبیر، فہمیدہ نصرت، قیصرہ بی بی ، آمنہ بلوچ و دیگر نے بھی عورتوں کی مشکلات اور حقوق کے پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ۔اسٹیج سیکرٹری کے فرائض فاطمہ بلوچ نے سر انجام دیئے۔