سینئر امریکی سفیر نے کہا ہے کہ امریکا شمارلی کوریہ کی طرح طالبان سے براہ راست مذاکرات نہیں کرسکتا کیونکہ ان دونوں حالات کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔
امریکا کی سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز نے واشنگٹن تھنک ٹینک کو اپنے حالیہ دورہ کابل کی تفصیلات بتاتے ہوئے زور دیا کہ اگر طالبان مفاہتمی عمل میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو وہ پہلے کابل حکومت سے مذاکرات کریں۔
انہوں نے طالبان کی جانب سے امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کے مطالبے کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو مستحکم کرنے تک امریکی فوجی وہاں رہیں گے۔
شمالی کوریہ کی جانب سے امریکا سے براہ راست مذاکرات سے قبل جنوبی اور شمالی کوریہ کی دوسرے سے بات چیت کے حوالے سے ان کا کہنا ’ شمالی اور جنوبی کوریہ اور افغانستان کے درمیان کوئی موازنہ نہیں‘ لیکن ہم افغانستان میں بغاوت، باغیوں اور حکومت کے درمیان بنیادی حقوق کے حل کی طرف دیکھ رہے ہیں، تاہم اس معاملے کے حل میں دلچسپی رکھنے والے دیگر فریقین کا بھی شامل ہونا ضروری ہے اور’ ہم اس معاملے میں تسلسل رکھتے ہیں‘۔
امریکی حکام نے یہ بھی اشارہ کیا کہ واشنگٹن دوطرفہ مذاکرات کا عمل جاری رکھنے اور افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین کو شامل کرنا چاہتا ہے۔
چین کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ چین کا کردار بہت اہم ہے، افغانستان میں چین کے ساتھ ہماری زیادہ دلچسپی ہے، ہم دونوں مستحکم اور مضبوط افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں، جہاں دہشتگردوں کی موجودگی کو روکا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ جفرافیائی اور سیاسی لہاذ سے چین ایک اہم کردار ہے اور چین کے ساتھ ہمارے کافی بہتر رابطے ہیں اورماضی میں ہماری کافی دو طرفہ ملاقاتیں بھی ہوئی تھی اور امید ہے کہ یہی طریقہ کار کو مستقبل میں اپنایا جائے۔