سنگت دلجان اور بھٹکتے مسافر – نودان بلوچ

731

سنگت  دلجان اور بٹھکتے مسافر
تحریر۔ نودان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ: کالم

آج اُس شخص کے بارے میں قلم آزمائی کی کوشش کر رہا ہوں، جس نے اپنے خون سے تاریخ رقم کی۔ اُسکی عظیم قربانی کو بیان کرنے کیلئے اُسکے تعریف کیلئے یقیناً میرے الفاظ کچھ نہیں۔

19 فروری 2018 کو جب نظروں سے ایک نیوز گذرا کہ زہری تراسانی میں مادر وطن کی دفاع کرتے کرتے دو بلوچ سرمچاروں نے شہید امیرالملک کی داستاں کو دہراتے ہوئے دشمن کے سامنے سرخم کرنے کے بجائے خود کو قربان کرنا بہتر سمجھ کر وطن کی مٹھی میں دفن ہو گئے ہیں۔

ان فرزندوں کے بارے میں سوشل میڈیا میں ہر شخص غم میں مبتلا نظر آ رہا تھا، یوں لگ رہا تھا کہ ہر آنکھ نم ہے، پھر ذہن میں آیا کے یہ کیسے لوگ ہیں، جِن کی شہادت پر لوگ ایسے غم میں مُبتلا ہیں، تو جاننا چاہا کے ان شہیدوں نے تحریک کیلئے کیا کردار ادا کیئے ہیں، جو آج ہر شخص اِن کی شہادت پر اس قدر غمگین ہے تومعلوم ہوا، اس جنگ میں شہید ہونے والا ایک شخص کا نام تھا دِلجان اور دوسرا سنگت تھا نورالحق۔

دلجان کا تعلق بی ایل اے سے اور نورالحق کا بی ایل ایف سے تھا، دو تنظیموں کے دوستوں کا ایک مشن پر ایک جگہ، ساتھ میں شہادت ایک خوش آئیند بات ہے جو کہ ایسے وقت میں جہاں ایک دوسرے سے اتنے اختلافات ہیں اور اتنے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور اسی وقت دونوں تنظیموں کے سنگتوں کا ایک ساتھ شہادت نے ہم سب کے ارادوں کو مضبوط کیا کے ہاں ہم ایک ہیں۔

تو جاننا چاہا کے دلجان عرف ضیا ٹک_تیر کون ہے؟ اسکا کردار کیا ہے، اسنے قوم کیلئے کیا کِیا جو آج اُسکی شہادت نے ایک الگ ہی رنگ اختیار کیا ہے۔

ٹک تیر دس سالوں سے بی ایل اے سے منسلک تھا اور اس کی قابلیت کی وجہ سے اسے جھلاوان کا کمانڈر بنایا گیا اور اُسکی بہادری کی وجہ سے ٹک تیر کا لقب دیا گیا، ضیاء وہ ہے جسکی قربانی کی وجہ سے اس اَندھیرے میں ایک روشنی آئی اب اُس روشنی کی طرف جانے کا وقت ہے نا کہ واپس اندھیرے کی طرف، اِس جنگ میں ہم نے بہت سے ہیرے کھوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دشمن سے آج بھی جنگ لڑ رہے ہیں۔

دلجان….دلوں پر راج کرنے والا، جس کے خون میں محبت سے وفا کرنا تھا، اپنے دھرتی سے وفا کرنا تھا، اپنے مادر وطن سے محبت، اپنے سرزمین کے زرے زرے سے عشق تھا، اپنے سرزمیں کے مظلوموں سے پیار تھا، جن پر قابض دشمن آئے روز طرح طرح کے ظلم ڈھا رہے ہیں، ان مظلوموں کا آواز تھا دلجان۔

دوستوں سے وفا کا داستان تھا دلجان، اپنی ماں کی آنکھوں کا تارا اور بہنوں کا دلارا تھا دلجان، اپنے والد کا فخر اور بچوں کا استاد تھا دلجان، سنگتوں اور بھائیوں کا کوپہ(کندھا) تھا دلجان، ہردل عزیر محفل کا شان تھا دلجان،اپنے فکر اور نظریہ کا پکا تھا اسی فکر اور نظریہ پر ڈٹا رہا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اَمر ہوگیا۔

کہتے ہیں کہ بلوچوں کے خون میں وفا ہے، غیرت ہے، آج سے میں کہتا ہوں میرے خون میں دلجان ہے، جس کے خون میں وفا، غیرت، عزت، محبت، پیار، عشق، بہادری، ایمانداری، ہمدردی، انسانیت، احساس، درد، مخلصی، سچائی تھی۔

شہید امیرالملک کی وہ خواہش (سنگت ءَ تے برابر کروئی اے) دوستوں کو ایک کرنا ہیں، وہ اپنے کوپہ اپنے یار امیرالملک کا خواہش پورا کرنے نکلا تھا، وہ شہیدوں کا ارمان پورا کرنے نکلا تھا، آزاد بلوچستان کا خواب پورا کرنے نکلا تھا، دلجان ان خواہشوں، خوابوں اور ارمانوں کو دل میں لیئے کبھی بولان کے سنگلاخ پہاڑوں میں کبھی شور اور پارود کے برفیلے چٹانوں پہ کبھی زہری اور خضدار کے میدانوں میں دشمن سے نبرد آزماء تھا اور کبھی اپنے یار امیرالملک کا خواہش پورا کرنے دوستوں کے وتاخ (بیٹھک) میں سب کو ایک ہونے کا دعوت دیتا تھا۔

آج جو دو تنظیموں کے بیچ اگر چار سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا ہے، تو اس میں ٹک_تِیر کا خون شامل ہے۔ ٹک تیر نے ان دونوں تنظیموں کو بیچ جاری چار سالہ جنگ بندی کیلئے بہت کوشش کی اور آج ضیاء کامیاب ہوا، اپنے اس مقصد میں ضیاء نے دو تنظیموں کو ایک کیا اپنے محنت اور قابلیت سے، آج تاریخ کو ضیاء جیسے بہادر مخلص اور سمجھدار سنگتوں کی ضرورت ہے۔

دلجان اور بارگ نے جِس مقصد کیلئے اپنے جان ندر کئے، اب ہمارا فرض بنتا ہے کے ہم ان شہیدوں کے مُقدس قربانیوں کو ضائع نا جانے دیں، اب اِس مقصد کو انجام تک پہنچانا میرا اور آپکا فرض ہے، اب ہمیں دلجان اور بارگ کے راستے میں چل کر اپنے مقام تک پہنچنا ہے، اپنی کھوئی ہوئی آزادی کو پانے کیلئے ہمیں ایک ساتھ ہونا ہوگا، ہمیں ایک ہونا ہوگا ان مظلوم بچوں کیلئے جن کیلئے ضیاء اور بارگ نے اپنے جان ندر کئے۔

اُس مستقبل کلیئے جس کا خواب شہیدوں نے دیکھا تھا، اپنے مقصد تک پہنچنے کیلئے ہمیں مخلص ہونا ہوگا، اپنے ہر جہدکار کے ساتھ غلط کے خلاف کھڑا ہونا اور سچ کا ساتھ دینے سے ہی ہمیں اپنا مقصد ملیگا یہ جنگ ایک شخص کیلئے نہیں لڑا جارہا نا ایک قبیلے کیلئے ضیاء نے خود کو قربان کیا بارگ اور دلجان نے اپنی جانیں ندر کیئے وہ ایک مظلوم قوم کیلئے جسکی آواز کو آج ظلم سے دبایا گیا ہے، اس آواز کو اٹھانے کیلئے ہی ضیاء اور بارگ نے اپنے قیمتی جانیں قربان کیئے، ہمیں اس جنگ کو قومی جنگ سمجھ کر لڑنا ہوگا۔

اگر یہ جنگ قومی جنگ ہے، آزادی کیلئے ہے، تو ہم کیوں ایک نہیں ہو سکتے؟ منزل ایک ہے تو راستے الگ الگ کیوں؟ اگر ایک دوسرے سے غلطیاں ہوئی ہیں، ایک دوسرے کے طریقہ کار سے اختلاف ہے، تو کیا یہ اختلافات یہ غلطیاں ختم نہیں کی جاسکتیں؟

اگر ہم مخلص ہوتے اپنے جہد سے تو ہم کسی بھی چیز سے زیادہ اپنے مقصد کو بالاتر سمجھتے، ناکہ ایک چھوٹی سے چیز کیلئے اپنے مقصد کو نظرانداز کرتے، اس مقصد کیلئے آج ضیاء جیسے نوجوان شہید ہو رہے ہیں، اگر اب بھی ہم وقت اور حالات کو سمجھ نا سکیں اور اپنی اِن جاہلانہ رویوں کو برقرار رکھ کر ایک دوسرے پہ اِلزام تراشی کرتے رہے، تو آنے والے وقت میں اور بارگ اور دلجان شہید ہونگے اور پھر ہم دو دن بیٹھ کر افسوس کرکے انکے جہد کو سلام پیش کرکے کل پھر اپنی وہی منافقت شروع کرینگے، تو اس قوم سے جاہل کوئی قوم نہیں جو صرف اپنے بھائی کے خلاف سچے دل سے دشمنی نبھاتا ہے۔