زاہد ایک عہد ساز لیڈر
مراد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یوں تو دنیا میں لاکھوں انسان پیدا ہوتے ہیں، لیکن اُن انسانوں میں کچھ ایسے انسان ہوتے ہیں کہ ان کے چلے جانے یا مرنے کے بعد بھی انہیں دنیا ہمیشہ یاد کرتی ہے۔ جیسا کہ ہوچی من فیڈرل کاسترو اور بلوچ تحریک میں نوری نصیر خان، فدا بلوچ، شہید غلام محمد بلوچ اور ایسے ہزاروں فرزندان موجود ہیں، جواپنی قومی آزادی اور آنے والے نسلوں کے مستقبل کیلئے اپنے کل کو قربان کرچکے ہیں۔ آج میں ایک ایسے شخص کے بارے میں لکھ رہا ہوں، جسے میں اپنا سیاسی استاد کہتا ہوں۔ جو ہر وقت مجھ جیسے ادنیٰ سے سیاسی ورکر کو اپنی قومی غلامی اور بد حالی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت دیتا رہا، وہ عظیم استاد میرے مہربان دوست زاہد بلوچ ہیں۔ جو آج سے ٹھیک چار سال پہلے اپنے قوم کو بیدار کرنے اور اپنے قومی حقوق کیلئے سیاسی جدوجہد کرنے کے پاداش میں پاکستانی خفیہ داروں کے ہاتھوں اغوا ہوئے۔ جو تاحال لاپتہ ہیں۔
زاہد سے میری پہلی ملاقات 2008میں ہوا، زاہد کے بارے میں اکثر دوستوں سے سنا تھا کہ وہ انتہائی سخت طبعیت کا انسان ہے۔ لیکن میں نے زاہد کو قریب سے دیکھا، تو اسے انتہائی مہربان لیڈر اور مہربان دوست کی طرح پایا۔ میری پہلی ملاقات میں اتنی جان پہچان نا ہوئی۔ لیکن اس کے بعد اکثر و بیشتر میری ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اس دوران دشمن نے اپنی بے رحم پالیساں بی ایس او آزاد پر انتہائی سختی سے استعمال کئیں۔ بہت سے دوست شہید کردیئے گئے اور بہت سے دوست اغوا ہوئے اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں اور جنگلوں میں پھینکے گئے۔ بہت سے دوست تاحال لاپتہ ہیں۔
اسی دوران ریاستی اداروں نے نے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو فوجی کیمپوں میں تبدیل کردیا۔ نوجوانوں کے لیئے یونیورسٹوں کو نوگو ایریا بنا دیا، کیونکہ ریاست پاکستان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان تعلیمی اداروں میں بی ایس او جیسے مضبوط اور نظریے سے لیس ادارے کے کارکن موجود رہیں گے۔ جو اپنے نوجوان نسل کو شعوری اور نظریاتی حوالے سے تربیت کرکے آپ کے قبضے کے حلاف جدوجہد کی ترغیب دیں گے۔ اسی دوران شہروں اور یونیورسٹیوں میں حالات کے خراب ہونے کے باعث زاہد بلوچ اکثر مشکے میں شہید ڈاکٹر منان جان کے ساتھ رہتےتھے۔ اسی دوران مجھے اور میرے مہربان دوست عزت جان کوزاہد بلوچ کے انتہائی قریب ہونے کا موقع ملا۔ اسی دوران زاہد سے ہماری دوستی گہرئی ہوتی رہی۔ کیونکہ ڈاکٹرمنان اکثر اپنے علاقے سے دور اپنے پارٹی سرگرمیوں مصروف رہتے۔ جب بھی وہ علاقہ میں آتے تو زاہد ان کے ہمراہ ہوتے۔ اکثرو بیشتر ہمیں اپنے مجالس میں ضرور بلا لیتے۔ ڈاکٹرصاحب کا اوتاک ہمارے لیئے ایک سیاسی درسگاہ سے کم نا تھا کیونکہ وہاں اکثر زاہد اور ڈاکٹر منان جیسے بے باک لیڈر ہمیں قومی آزادی اور آزادی کی جدوجہد میں پارٹی اور تظیم کی اہمیت کے بارے میں سرپدی دیتے رہے۔
زاہد کے ساتھ کے گذرے ہوئے وقت آج بھی مجھے یاد ہیں ۔ اکثر وبیشتر سفروں میں زاہد کے ہمراہ تھا ۔ کبھی جھاؤ تو کبھی نال گریشہ۔ ہر وقت زاہد مجھے ایک چیز کا احساس دیتے تھے کہ اپنے اوپر بھروسہ پیدا کرو۔ اگر کسی بھی سیاسی کارکن کو اپنے اوپر خوداعتمادی نا ہو تووہ ہمیشہ راستہ میں تھک جاتا ہے۔ زاہد سے ایک چیز ہمیشہ میں نے سیکھا ہے۔ کہ زاہد بطور ایک سیاسی کارکن ہمیشہ تظیمی حوالے سے کسی بھی لیڈر اور شخصیت کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ تنظیمی اور پارٹی مسائل پر سب پر تنقید کرتے تھے اور ہمیشہ سے گروہی سیاست کے سخت مخالف تھے۔ وہ گروہیت کو تحریک کے لیئے زہرِ قاتل سمجھتے تھے، وہ ہمیشہ سے قومی پارٹی بنانے کے لئیے زور دیتے تھے۔ ان کا ہمیشہ کہنا تھا کہ ان بکھرے ہوئے لوگوں کو ہمیشہ ایک انقلابی پارٹی یکجا کرتی ہے۔ ایک ایسا انقلابی پارٹی جہاں ہر کسی کو اپنے غلطیوں کا جواب دہ ہونا ہو۔ ایک ایسا بالادست ادارہ، جہاں ہر کسی کو جواب دہ ہونا ہو۔ تب ہم اپنی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔
وہ ہمیشہ ہمیں یہی تربیت کرتے تھے کہ اپنے آپ کو ایک سیاسی ورکر بنانے کو کوشش کرو۔ کیونکہ ایک سیاسی ورکر ہی اپنے پارٹی کو صحیح معنوں میں انقلابی طریقوں سے منزل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ زاہد میں وہ خوبیاں موجود تھیں، جو ایک سیاسی لیڈر میں موجود ہوتی ہے۔
وہ ہمیشہ اپنے دوستوں کو نظریاتی اور فکری حوالے سے تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ اگر ہمارے کارکن مکمل انقلابی اور شعوری حوالے سے تیار نا ہوں تو کوئی بھی شخص انہیں اپنے قبائلی اور گروہی مفادات کی خاطر استعمال کردیتا ہے۔
آج اسی سیاسی تربیت کی پاداش میں زاہد دشمن کے زندان میں اذیت برداشت کررہے ہیں ۔ اپنے قوم کی آنے والے نسلوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کی پاداش میں وہ اذیتیں سہہ رہا ہے۔ آج میں دنیا کے تمام انسان دوست اور انسانی حقوق کی تظیموں سے زاہد کی بازیابی میں کردار ادا کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔ اگر خدانخواستہ زاہد کو کچھ ہوگیا۔ تو بقول شہید ڈاکٹرمنان کے یہی سمجھو کہ ہم نے اپنا ایک سرمایہ کھو دیا۔