دلوں پہ راج کرنے والا دلجان – کامریڈ سنگت بولانی

321

“دلوں پہ راج کرنے والا دلجان

تحریر : کامریڈ سنگت بولانی

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ سنہرے الفاظ کہاں سے لاوں، جو تمہارے عظیم جہدِ مسلسل کو دنیا کے سامنے آشکار کر سکیں، بس ایک چھوٹی سی کوشش کر رہا ہوں، اگر کوئی کمی رہ گئی تو مجھ جیسے ناقص سنگت کو بخش دینا۔

آزادی ایک خوبصورت احساس ہے، جس سے محبت تو سبھی کرتے ہیں لیکن بہت کم ہی انسان ایسے ہوتے ہیں، جو اس کو پانے کے لئیے اپنی زندگی ہتھیلی پہ رکھ کر اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے اس پر کٹھن رستے کا انتخاب اس امید پہ کرتے ہیں کہ وہ غلامانہ زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کرکے، اپنے آپ اور اپنی قوم کو اس حسین احساس سے آشنا کرسکیں گے۔ اس مشکل و پرکھٹن سفر میں احساسِ غلامی رکھنے والا دلجان اپنے دھرتی کی مٹی سے بندھا ہوا تھا اور اس جہدِ مسلسل سے وہ اپنی آخری سانس تک جڑا رہا۔

سنگت کامریڈ ضیاء الرحمان عرف دلجان سے پہلی ملاقات جنوری 2013 میں ہوا، جب میں دوستوں سے ملنے شور پارود چلا گیا اور وہی ملاقات پہلی اور آخری رہی، کئی دفعہ مجھے ملاقات کرنے کا کہا لیکن مختلف مصروفیات کی وجہ سے ہماری ملاقات نہیں ہو سکی لیکن وہ دو گھنٹے کی ملاقات آج بھی میرے ذہن کے ایک کونے میں محفوظ ہے، جسے قلمبند کرنا میری ناقص رائے کے مطابق انتہائی ضروری ہے۔

صبح کے دس بج رہے تھے، دوستوں نے آواز دی کہ چلو لکڑیاں لانے چلتے ہیں۔ میں نے اپنا بندوق اپنے کندھے پہ لٹکائے دوستوں کے ساتھ روانہ ہوا، واپسی پر ہم کیمپ پہنچے تو قریب رستے میں ایک سنگت نے آواز دی “او سنگت پاٹ تے تخاس گوڑا دانگ بریس” سنگت لکڑیاں رکھ کے ادھر آنا” میں نے پیچھے دیکھا تو دو سنگت ایک جھونپڑی کے باہر بیٹھے تھے، لکڑیاں رکھ کر میں ان دوستوں کے پاس پہنچا۔ ان دوستوں میں سے ایک دلجان اور دوسرا سنگت حق نواز تھا، جسے تمام سنگت سٹو سٹو کہہ کر پکارتے تھے۔

سنگت یہاں آکر کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ دلجان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

“سنگت ان دلکش بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں آکر میں آزادی کی سانسیں لے رہا ہوں، یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں اپنی غلامی کے زنگ آلود زنجیروں کو توڑنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہوں”۔

میں نے پہاڑوں کی جانب نظر گھماتے ہوئے جواب دیا

“بالکل سنگت غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیئے ہم سب کو مل کر اس قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت کرنا ہے اور اپنے قوم و سرزمین کو اس قابض ریاست سے آزاد کرانا ہے”۔

دلجان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

اس دو گھنٹے کے ملاقات کے بعد میں واپس شہر آکر اپنے ذمہ داریوں کو نبھاتا رہا اور کچھ عرصے بعد شہر سے واپس پہاڑوں کا رخ کیا اور پھر ہمارا رابطوں کا سلسلہ فون پر ہی ہوتا رہا

سنگت دلجان کی بیجھی ہوئی آخری میسج :

“سنگت ہمیں یہ بات ذہن نشیں کر لینا چاہیے کہ ہمیں کھبی بھی اپنے ذاتی مفادات، نام یا مراعات کے پیچھے نہیں بھاگنا ہمیں صرف اور صرف اپنے قومی سوچ و مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اپنے دشمن کے خلاف آخری سانس تک مزاحمت کے ساتھ ساتھ اپنے قوم کو شعور بھی دینا ہے اور ہم سے جتنا ہوسکے، عوامی رابطے کو بحال کرنا ہے کیونکہ کسی بھی تحریک کی کامیابی عوام سے جڑی ہوتی ہے اور ہمیں امید ہیکہ ہماری محنت رائیگاں نہیں جائیگا ۔”

دلجان و بارگ، سنگت امیر الملک،سنگت ساتک، و سنگت محترم نے ہندوستان کے بہادر جہدکار چندر شیکھر آزاد کی یاد تاذہ کرتے ہوئے، دشمن کے ہاتھ لگنے و تنظیمی رازوں کے افشاں ہونے کے خطرات سے نمٹنے کے لیئے آخری گولی سے اپنے جسم کا خاتمہ کرنے والے فلسفے پر عمل پیرا ہوکر موت کا استقبال مسکراتے ہوئے کیا اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

سنگت میں وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ اور تمام سنگتوں کی جہدء مسلسل سے ایک دن بلوچ قوم کو آزادی کی صبح ضرور نصیب ہوگی اور اس دن بوڑھے،جوان سب اکٹھے ہوکر آپ تمام شہداء کی یاد میں چراغاں کرینگے اور اپنے آزادی کے گیت گائینگے۔