بلوچستان بھر میں بی ایس او آزاد کی جانب سے پمفلٹ تقسیم

295

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے تنظیم کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ کے جبری گمشدگی کے چار سال پورے ہونے کے موقع پر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ایک پمفلٹ بعنوان “چیئر مین زاہد بلوچ تا حال لا پتہ ہے” تقسیم کی، جو دی بلوچستان پوسٹ کو موصول ہوئی ہے۔

 

پمفلٹ میں بلوچ عوام سے مخاطب ہوکر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بی ایس او کی سیاسی سفر میں مختلف نشیب و فراز آتے رہے لیکن بی ایس او نے جدوجہد کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ اس سیاسی سفر میں بی ایس او شدید ریاستی ظلم و جبر کا شکار رہا ہے ، سینکڑوں کارکنان عقوبت خانوں کے نذر کردیے گئے جس میں سے درجنوں کی مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوئے ہیں۔ بی ایس او اپنے کارکنان سمیت تمام لاپتہ بلوچ اسیران کی اغوا نما گرفتاری اور عدم بازیابی کے خلاف انسانی حقوق کے اداروں اور دنیا کے بااثر ممالک کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہی مگر بد قسمتی سے دنیا اپنی مخصوص مفادات کی خاطر بلوچ قوم اور بلخصوص بی ایس او کے ساتھ ہونے والی ریاستی مظالم پر خاموش رہے ۔

 

پمفلٹ کے متن میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار اور مہذب اقوام کی خاموشی یقیناًپاکستان کے بلوچ کش پالیسی کو وسعت دینے میں کارگر ثابت ہو رہے ہیں، اسی تناظر میں آج بی ایس او کے سابق مرکزی چیرمین سنگت زاہدبلوچ کو چار سال بیت گے تاحال وہ پاکستانی بدنام عقوبت خانے قلی کیمپ اور نامعلوم ٹارچر سیلز میں انسانیت سوز تشددسہہ رہے ہونگے جو بلوچ نوجوانوں پر ہونے والے ظلم اور بین الاقوامی اداروں کیلے ایک سوالیہ نشان کھڑا کر سکتا ہے ۔ عالمی قوانین میں بلوچ قوم پر ہونے والے نسل کشی کو پاکستان کا اندرونی مسلہ قرار دیکر خاموشی اختیار کیا جائے تو پھرہم کہنے میں حق بہ جانب ہونگے کہ انسانوں کے نام پر بنائے گئے انسانی حقوق کے ملکی اور عالمی ادارے اور مہذب اقوام کا فارمولا استعمال ہوناکسی مضحکہ اور انسانیت پر سوائے مذاق کے اور کچھ نہیں۔

 

پمفلٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بی ایس او بلوچ سماج میں موجود جمود کو توڑنے اور سیاسی و سماجی شعور کی سطح کو بلند کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا ہے۔اس شعوری عمل کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے پاداش میں بی ایس او شدید ریاستی جبر شکار ہے ۔مگر اس کے باوجود اس سوچ کو اجاگر کرنے اور بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم کے خلاف بلوچ نوجوانوں کو منظم ومتحد کرنے میں کامیاب رہے،اگر بی ایس او کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو مختلف حالات میں بی ایس او قومی سوال پر اٹھنے والی تمام سازشوں کے خلاف اور بلوچ بقا کی خاطر بلوچ سماج میں آگاہی پروگرامز کے توسط سے انہیں ناکام کرانے کی بھر پور کوشش کرتا رہاجو تاحال بی ایس او کے پالیسی پروگرام کا حصہ ہے ۔

 

پمفلٹ کے دوسرے حصے میں بلوچ نوجوانوں سے مخاطب ہوکر میڈیا کی خاموشی پر کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ڈہائے گئے مظالم پر میڈیا کی لب کشائی اور پا کستان میں موجود انسانی حقوق کے ادارے اور سول سوسائٹی کی خاموشی بلوچستان میں آئے روز ہونے والے زیادتیاں بلوچ قوم کو معاشی ،سماجی اور انسانی بحران کے دہانے پر پہنچا چکی ہے جو گزشتہ چند سالوں میں قابض پاکستان کی ظلم و جبر کا بدترین مثال ہے مگر بلوچستان میں بین الاقوامی میڈیا کی رسائی نہ ہونا اور پاکستانی سنسر میڈیا بلوچوں پر ہونے والی مظالم کو ایک خوشحال بلوچستان پیش کرتا چلا آرہا ہے جس طرح بنگال میں ہونے والی مظالم پر سیاہ کردار کو چھپاتے رہے اور آج دنیا میں سوائے ندامت اور شرمندگی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جس کا ذکر پاکستانی سیاست دان اور صحافی خود رو رو کر تصدیق کر رہے ہیں ۔ اپنی زبانی کہتے ہیں کہ بنگالیوں کے لاشیں کتے اور کوے کھاتے رہے۔ میڈیا عوام کو غلط رپورٹنگ کرتی رہی تاکہ پاکستان میں موجود انسان دوست اشخاص اور ادارے ہمارے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوں۔ان تمام مظالم پرپردہ پوشی بالآخر بنگلہ دیش کا موجب بنا۔آج وہی پالیسی بلوچستان میں پاکستانی میڈیا نبھا رہی ہے بلوچوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بولنے کووالوں مار دیا جاتا ہے جنکی واضح مثال سبین محمود، بلوچ صحافی ، منیر شاکر ، عبدالحق، محمد خان ساسولی اور ارشاد مستوئی رہے ہیں جو ان مظالم پر بولنا اور دنیا کو بتانا چاہتے تھے آج بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریاستی ظلم وبربریت عروج پر ہے تو وہاں انٹر نیٹ سسٹم بھی کئی مہینوں سے بند کردی گئی ہے تاکہ اُن علاقوں میں ہونے والی مظالم کو چھپایا جاسکے۔ انہی مظالم میں عام نہتے عوام اور سیاسی کارکن باآسانی شکاربنتے جارہے ہیں، جنکی ایک بڑی فہرست آزادی پسند پارٹیاں اور بلوچستان میں انسانی حقوق پر کام کرنے والے سرگرم ادارے بی ایچ آر او اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسن اپنے پریس کانفرنس اور اخباری بیانات میں دے رہے ہیں۔

 

پمفلٹ میں زاہد بلوچ کے جبری گمشدگی کے بابت مزید کہا گیا ہے کہ آج چیئرمین زاہد بلوچ کے چار سال پاکستانی ٹارچر سیلوں میں مکمل ہوچکے ہیں، اسی دن کے مناسبت سے ہم ایک بار پھردنیاکے تما م انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان میں ہو نے والے مظالم کے خلا ف آواز بلند کر یں بلوچستان میں پاکستان کا بلوچ نسل کشی کے پالیسی میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، آج بلوچستان کو فوجی تجربہ گا ہ بنا یا گیا ہے، ہر طرف بلوچ فرزندوں کا خون بہا جارہا ہے اور دوسر ی طر ف اغوا نما گر فتا ری کانہ رکنے والا سلسلہ بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ جاری و ساری ہے لیکن اُن تمام لاپتہ کئے گئے افراد کی با زیابی کے بجا ئے انکی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہو رہی ہیں، ان حالات میں بلوچ نوجوانو ں کی بازیابی کیلئے دنیا بھر میں زمہ دا ر ادارے جو انسانی حقوق پر کام کررہے ہیں امید کرتے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستانی مظالم کا نوٹس لینگے اور لاپتہ افراد کی بازیابی میں اپنا کر دار ادا کرینگے۔