ایران ہمارے لئے چیلنج ہے ، اسے روکنا ہوگا : اسرائیل

154

اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے کہا ہے کہ ’’ایران کو روکنا ہوگا۔ ہمارے لیے یہ ایک مشترکہ چیلنج ہے‘‘۔

اوول آفس میں ایک دوسرے کے ہمراہ بیٹھے ہوئے، دونوں سربراہان نے مشرق وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر اور جوہری ہتھیاروں کو تشکیل دینے کے ایران کے عزائم کو روکنے کے لیے 2015ء میں ایران کے ساتھ ہونے والے بین الاقوامی معاہدے کے حوالے سے گفتگو کی۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو دونوں نے سمجھوتے کو ’’ناکافی‘‘ قرار دیا۔

ٹرمپ معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ملکوں، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین، چین اور روس کی حمایت کے حصول میں ناکام رہے ہیں، تاکہ سمجھوتے پر دوبارہ مذاکرات کیے جائیں۔

نیتن یاہو نے کہا کہ ’’ایران نے اپنے جوہری عزائم ختم نہیں کیے‘‘۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’نیوکلیئر معاہدے کے نتیجے میں ایران کی ہمت بڑھی۔ اب وہ ہر جگہ جارحیت کرتا پھر رہا ہے، جس میں ہماری سرحدیں بھی شامل ہیں‘‘۔

شام کے صدربشار الاسد کی حمایت کے لیے شام میں ایرانی افواج کی بڑھتی ہوئی موجودگی اسرائلی راہنما کے لیے خاص تشویش کا باعث ہے، جنھوں نے الزام لگایا ہے کہ ایران شام میں ایک مستقل اڈا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اپنے کلمات میں، ٹرمپ نے ایران کا نام لیے بغیر کہا کہ امریکہ اور اسرائیل ’’فوجی اعتبار سے اور دہشت گردی کے انسداد کے حوالے سے بہت ہی، انتائی قریب تر ہیں؛ اور اُن سارے معاملات میں جن میں ہم ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ تعلقات کبھی اس سے بہتر نہیں رہے‘‘۔

ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیلی ریاست کے 70 ویں یوم آزادی کے موقعے پر، جس نے مئی 14، 1948ء میں آزادی کا اعلان کیا، امریکی سفارت خانے کے افتتاح کےموقع پر ممکن ہے کہ وہ یروشلم جائیں۔

ایک اخباری نمائندے کے سوال پر، ٹرمپ نے کہا کہ ’’میں آنا چاہوں گا۔ اگر یہ ممکن ہوا تو میں ضرور آؤں گا‘‘۔

صدر نے کہا کہ اُن کے خیال میں فلسطینی بات چیت کی میز پر آنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن، ’’اگر وہ ایسا نہیں کرتے، تو امن نہیں آ سکتا‘‘۔ اُنھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ ’’سخت نوعیت کا سمجھوتا‘‘ طے کرنے میں پیش رفت ہو تو ’’سالہا سال کی مخالفت، اور یوں کہیئے کہ نفرت‘‘ سے جان چھوٹ جائے گی۔

ٹرمپ نے یہ کلمات اُس وقت کہے جب دونوں سربراہان کی ملاقات سے قبل اُنھوں نے ذرائع ابلاغ کے ایک چھوٹے سے گروپ کے چند سوالوں کے جواب دیے۔ تاہم، نامہ نگاروں کو ٹرمپ اور نیتن یاہو سے باضابطہ سوال کرنے کا موقع میسر نہیں ہوگا، چونکہ مشترکہ اخباری کانفرنس نہیں ہوگی، جب کہ گذشتہ سال فروری میں وائٹ ہاؤس میں دونوں کی ملاقات کے بعد صحافیوں نے سوالات کیے تھے۔