امریکا نے جوہری تجارت میں ملوث پاکستان کی 7 کمپنیوں پر پابندی عائد کردی۔
مذکورہ کمپنیوں کو امریکی پالیسیوں سے متضادم اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قراردیا گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے سے واضح ہوگیا کہ پاکستان کے لیے نیوکلیئرسپلائرز گروپ (این ایس جی) میں شمولیت کے امکان بہت کم ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ این ایس جی 48 ممالک کا عالمی گروپ ہے جس میں شامل ہو کر جوہری مواد کی پرامن مقاصد کے لیے تجارت کی جا سکتی ہے۔
بھارت نے 1974 میں جوہری دھماکے کیے جس کے بعد این ایس جی کا قیام ہوا۔
امریکی بیوریو آف انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی کی تیار کردہ فہرست میں کل 23 کمپنیوں کا ذکر ہے جسے امریکی فیڈریل رجسٹرار نے شائع کیا، جس میں پاکستانی 7 کمپنیوں سمیت 15 جنوبی سوڈان اور ایک سنگاپورکی کمپنی شامل ہے۔
امریکا کی جانب سے عائد پابندیوں کے بعد تمام 23 کمپنیاں عالمی سطح پر تجارت سے معذور رہیں گیں۔
جن پاکستانی 7 کمپنیوں پرپابندی عائد کی گئی ان میں 3 کے بارے میں واضح کیا گیا کہ ’وہ جوہری مواد کی سپلائی میں غیر صحت مندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو امریکی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسیی کے منافی ہے۔
پابندی کا شکار 2 پاکستانی کمپنیوں پر الزام ہے کہ وہ جوہری مواد سے متعلق سامان کی فراہمی میں ملوث ہیں جبکہ باقی 2 کمپنیاں ’فرنٹ مین‘ کے طورپر پابندی کا شکار کمپنیوں کے لیے کام کررہی تھیں، اس کے علاوہ 8ویں کمپنی کا دفتر سنگاپورمیں قائم ہے ۔
امریکا کے محکمہ کامرس نے واضح کیا کہ سنگاہ پور میں مشکو لوجسٹکس پرائیوٹ لمیٹڈ اور پاکستان میں مشکوالیکڑونکس پرائیوٹ لیمٹڈ کی جانب سے دیگر پابندی کا شکار کمپنیوں کو سامان فراہم کرنے کی پاداش پر پابندی لگاگئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں قائم سولیوشن انجنیئرنگ امریکا کے تیار کردہ سامان خرید کر پاکستان میں موجود کمپنیوں کو فراہم کرتی تھی جو جوہری مواد کی تیاری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
امریکا کے مطابق پاکستان کی 3 کمپنیاں اختر اینڈ منیر، پروفیشنٹ انجینئرز اور پرویز کمرشل ٹریڈینگ کمپنی (پی سی ٹی سی) کو جوہری مواد کی غیر محفوظ نقل و حرکت کے الزام میں پابند عائد کی گئی۔
پاکستان میں امریکی پابندیوں کا شکار کمپنیوں کو سہولت کاری طور پر خدمات پیش کرنے والی کمپنی مرین سسٹم پرائیوٹ لمیٹڈ بھی پابندی کی زد میں ہے جبکہ انجینئرنگ اینڈ کمرشل سروسز پر بھی جوہری مواد کی سپلائی کا الزام ہے ۔
واضح رہے کہ پابندی کا شکار 23 پاکستانی کمپنیوں کو لائسنس منسوخی یا سخت پابندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی کے مطابق پاکستان کی 7 کمپنیوں کے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں متعدد ایڈریسز بھی شامل ہیں۔
امریکا کی جانب سے مذکورہ فیصلے کے بعد پاکستان کا این ایس جی میں شامل ہونے کے امکانات کم ہو گئے ہیں جبکہ پاکستان نے 19 مئی 2016 کو گروپ میں شمولیت کے لیے درخواست پیش کی تھی دوسری طرف امریکا اور بیشتر مغربی ممالک گروپ میں بھارتی شمولیت کی حمایت کرتے آئے ہیں۔
پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ این ایس جی میں شمولیت کے لیے خواہش مند ممالک کے ساتھ تفریق والا رویہ بند کیا جائے جس پر متعدد ممالک نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی تھی۔
چین اور ترکی نے پاکستان کی درخواست کی حمایت کی تھی لیکن انہوں نے نئے ممالک کی شمولیت سے متعلق خدشات اٹھائے جس کی وجہ سے بھارت کا این ایس گروپ میں داخلی کامعاملہ التوا کا شکار ہوا۔