آخری گولی کا انتخاب
تحریر :- اسماعیل شیخ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
شروع کروں تو کیسے کروں
تیری تعریف بیاں کروں تو کیسے کروں
یہ نا ہو کہ زبان سے نکلے الفاظ غلط ہوجائیں اور حالات کا کماحقہ اظہار نا کرسکیں، کوشش کرونگا کہ رونجھہ، شیخ، جاموٹ، انگاریہ ، موندرہ حتیٰ کہ پوری لاسی قوم کو اپنی جانب متوجہ کرکے آگاہی دے سکوں، کیونکہ ہماری لاسی قوم میں شعورِ آجوئی بہت کم پائی جاتی ہے. انہیں بابا جام، اور بابا بھوتانی کے چُنگل سے نکال کر، بلوچ قومی دھارے میں شامل کرنا ایک فرضِ اولین ہے، یہ بیداری ضیاءالرحمن عرف دلجان کے بدولت ممکن تھا، لیکن اب ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ لاسی قوم کو بیدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
خوش مزاج اور ہنس مکھ دلجان، یہ وہ دن تھے جب شہید دلجان بلوچ کا ایک پی سی او (پبلک کال سینٹر) ہوا کرتا تھا، میرا سلام دعا اس وقت سنگت سے نہیں تھا لیکن جب بھی دلجان کے دکان کے سامنے سے گذر ہوتا، تو وہ ضرور مسکرا دیتے۔ آہستہ آہستہ سلام دعا ہونے لگا، جب کالج میں داخلہ ہوا، تو سنگت دلجان بھی میرے کلاس فیلو بن گئے، وہ ہمیشہ دوستوں سے قربت رکھتے تھے، نئے دوست بناتے تھے. میرا بھی شمار انہی دوستوں میں ہوگیا، پڑھائی پے دیہان دیتے اور بی ایس او (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے ممبر بھی تھے۔ دوستوں کو بی ایس او کی طرف راغب کرنا ان کا روز کا کام تھا، ان کی رہنمائی کرتے، دن رات محنت کرتے. آرٹیکلز، پمفلٹ ہمیشہ آپ کے ہاتھوں میں دکھائی دیتے، کبھی ہاتھ خالی نا رہتے۔ سب سے کہتے دوست یہ پڑھو، دوست وہ پڑھو، بلوچستان میں یہ دیکھو، کیا ہو رہا ہے، مجھے کہتے یہ دیکھ لو کہ وندر میں دُدّر کا سینہ کیسے چیرا جا رہا ہے، کیسے لسبیلہ کے وسائل لوٹے جارہے ہیں، کیسے حبکو پاور پلانٹ سے پورے پنجاب کو بجلی فراہم کیا جارہا ہے اور ہم بلوچ یہاں ایک لالٹین کے نیچے اندھیرے میں ہیں، کیسے حبکو دور دور تک روشنی دیتا ہے لیکن عین اسکے نیچے اندھیرا چھایا ہوتا ہے.اگر کسی دن دلجان سے ملاقات نا ہوتی تو دل میں وسوسے اور بے قراری سی پیدا ہوجاتی، وہ بلوچستان کے کونے کونے کی مثالیں دیتے، کبھی سوئی کبھی تفتان (سیندک) تو کبھی گوادر، ہر وقت مادر ء وطن کے غم میں مگن تھے۔
وقت یوں ہی گذرتا گیا، پھر کالج سے فارغ ہونے کے بعد دوست جدا ہو گئے، میرا داخلہ یونیورسٹی میں ہوا سنگت سے حال احوال سمجھو کہ ختم ہی ہو گیا، کیونکہ موبائل فون ہر عام او خاص کے پاس نہیں تھا. سال گذرتے گئے، اسی دوران تقریباً کم و بیش 8، 9 سال کا طویل عرصہ بیت گیا، اسکے بعد ( ان 8،9 سال کے بیچ میں میں نے کئی دوستوں سے سنگت دلجان کے بارے میں حال احوال لیا لیکن ہر بار مجھے دوست یہی کہتے کہ سنگت دلجان شیخ زاہد ہسپتال میں ہیں) ایک دن زرکان نے مجھے فون کیا(زرکان بھی میرے دوستوں میں سے ایک دوست تھا) کہ آج ہمیں کسی دوست سے ملنے جانا ہے۔ میں تمہارے لیئے آوں گا تیار رہنا. اندھیرا چھانے لگا میں زرکان کے انتظار میں تھا کہ اچانک فون پہ میسج آیا، “سنگت باہر آجاو” میں باہر نکلا زرکان کے ساتھ موٹرسائیکل پر سوار ہوا، کچھ دیر بعد سنگت نے موبائل پر نمبر ڈائل کیا اور پوچھا “سنگت کیتھ” (دوست کہاں پے ہو) دوسری طرف سے اُسے کہا گیا کہ فلاں جگہ پہنچو، ہم وہاں پہنچے، تو ایک بڑے بالوں والا لڑکا انتظار میں تھا، قریب پہنچے تو دیکھا یہ تو میران ہے۔.
میران سے سلام دعا کیا اور حال آحوال ہوا، دوسرے دوستوں کے بارے میں پوچھا. پھر باتوں باتوں میں میں نے دلجان کے بارے میں حال آحوال کیا تو میران نے کہا کہ دلجان بلکل ٹھیک ہے، ہر وقت آپ لوگوں کا پوچھتا ہے اور سنگت محاذ پہ ہے، مادر وطن کی حفاظت پہ مامور ہے، سوچنے لگا کہ ضیاء جان آپ کے گھر والے کتنا فخر کر رہے ہونگے، آپ کی ماں، باپ بھائی اور بہنیں آپ پر کتنا متفخر ہونگے کہ دلجان محاذ پر ہے اور ہمارے لیئے اور قوم کیلے قربانی دے رہا ہے، کیسے خوش نصیب ہونگے وہ گھر والے جن کا لختِ جگر آرام کی زندگی چھوڑ کر پہاڑوں پر نا سردی کا ڈر نا گرمی کی شدت سے بے خوف بلوچ قوم کی حفاظت کر رہا ہوگا۔
میران کے ساتھ ملاقاتیں ہوتیں رہیں، ایک دن میران نے دلجان سے رابطہ کیا اور کہا شیخ آپ سے بات کرنا چاہتا ہے، میں من ہی من میں خوش ہونے لگا، یوں حال احوال ممکن ہوا، دل میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی اسی دوران شہید دلجان سے شروع دن سے لیکر اب تک کی ساری باتیں ہوئیں، دل تو نہیں چاہ رہا تھا کہ رابطہ ختم ہو لیکن یہی کہہ کر بات ختم کردی کہ سنگت رابطے میں رہنا اور ملاقات کیلئے تیار رہنا۔
مصروفیات کچھ زیادہ ہی بڑھتی گئیں. رابطے ہوتے گئے لیکن ملاقات نہیں ہو سکا، کچھ عرصہ بعد جب سنگت دلجان بلوچ کی طرف ارادہ ہوا، ملاقات کا لیکن حالات نے ہمیں ملنے نا دیا۔
جب کسی الجھن میں رابطہ کرتا تو وہ اس پریشانی کو نمٹا دیتے، اسے ہمیشہ دوستوں کی فکر رہتی تھی، چاہے کسی بھی قسم کی پریشانی ہوتی دوست اور بھائی بن کر مدد کرتے. شہید دلجان کھبی کبھی کہتے کہ آپ رابطہ کم کرتے ہو، کیا ہم سے ناراض ہو، میں نے کہا اللہ نا کرے آپ ہمارے جگر ہو، میں نے کہا دلجان میں اس لیے حال احوال کم کرتا ہوں کہ آپ سنگت پر پہلے سے ہی بہت سی ذمہ داریاں ہیں، آپ کے کام بہت ہوتے ہیں، میں یہ نا سمجھوں کہ میں آپ کو پریشان کر رہا ہوں۔
دلجان ہمیشہ یہی چاہتے کہ سنگت ایک دوسرے سے حال احوال کریں، قوم میں بیداری لائیں، نئے دوست ہم فکر پیدا کریں۔ اسی فلسفے کو لیکر وہ ہر اس سنگت کے پاس گئے، جن سے ناراضگیاں ہوئیں تھیں، اُن گِلے شِکووں کو مٹانے دلجان ہر اس دوست، استاد، کامریڈ کے پاس گئے کہ ہمیں ایک ہو جانا چاہئے. اسکا ایک مثال تو یہ ہے کہ آپ شہید نورالحق عرف بارگ کے ساتھ تھے، اسی غم او فکر کو لیئے دلجان زہری تراسانی آئے. شہید دلجان سے آخری دفعہ میرا رابطہ اُن کی شہادت سے ایک دن پہلے ہی ہوا، سنگت نے یہی کہا ” شیخ بیداری، دشمن شکست میں مبتلا ہے اور شکست اُس کا نصیب ہے”.
19 فروری کو ایک بڑے فوجی آپریشن میں شہید دلجان اور شہید بارگ نے دشمن فوج سے ننگے پاؤں 3 گھنٹوں تک مقابلہ کیا. جہاں شہید امیر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دلجان اور بارگ نے ایک ایک گولی اپنے لیئے بچا کے رکھا ہوا تھا. شہید دلجان شروع سے ایک عظیم نظریے کے انسان تھے. شہید دلجان نے اگر آخری گولی کا انتخاب کیا ہوگا، تو ایک سوچ کے تحت، ویسے تو آخری گولی اپنے آپ پر ہر کوئی مختلف طریقوں اور سوچ کے تحت استعمال کیا ہوگا لیکن جہاں تک دلجان نے آخری گولی کا انتخاب کیا ہوگا، وہ یہی سوچ کر کہ گولی اگر دماغ میں پیوست یا دماغ کے بیچو بیچ سے گذارا جائے تو دشمن کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا، اور تنظیمی ہر راز، راز ہی رہ جائے گا. دشمن بھی کیا دشمن ہوگا، وہ تو سر جھکائے شرمندگی منہ پہ لیئے واپس گیا ہوگا۔
ایک عظیم انسان سوچتا بھی عظیم ہے. دلجان خوش نصیب تھا، جس نے جنم اسی دھرتی پہ لی اور اسی دھرتی میں آسودہ خاک ہو گیا. جس ماں کی کوکھ سے جنم لیا اور وہیں دھرتی ماں کی کوکھ میں آرام فرما رہے ہیں. وقتِ شہادت کیا خوب یاد کیا ہوگا، پچپن کو، بچپن میں ماں نے بلایا ہوگیا، دلجان بیٹا آجاؤ کھانا کھا لو، دلجان نے کہا ہوگا بس ماں تھوڑا اور کھیل لوں. اور اب جب دھرتی ماں نے پکارا ہوگا دلجان آجاؤ تو دلجان نے کہا ہوگا ماں تھوڑا اور انتظار کرو مجھے آپ کے دشمنوں سے بدلا لینے دو.
بس دل میں یہی ارمان رہ گیا کہ سنگت دلجان بلوچ آپ سے ایک آخری ملاقات بھی نا کر سکے، امید سے تھے کہ جھالاوان کے بعد آپ کو لسبیلہ سنبھالنا ہے، آپ کو بانہوں میں نا لے سکے، آپ کا خوبصورت چہرہ اور اس پہ تبسم نا دیکھ سکے، آپ سنگت ہمیشہ کام پر زور دیتے، آپکا سوچ بلند او بالا تھا، دل تو نہیں چاہتا کہ لکھنا ختم کروں لیکن مجھ نا چیز کو آپ کی تعریف بھی کرنا نہیں آتا. بات اس بات پہ ختم کرنا چاہوں گا کہ ایک دفعہ آپ سنگت نے مجھ سے پوچھا کہ موسم کیسا ہے آپ کے علاقےکا؟ تو میں نے مذاق میں سنگت دلجان سے کہا آپ کونسے موسم کے بارے میں پوچھ رہے ہیں (آب او ہوا والا یا دشمن سے مزاحمت والا) تو سنگت نے کہا؛ آب و ہوا کو کیا کرنا ہے دشمن کا بتاؤ؟
آپ کی مادر وطن سے محبت بے انتہا تھی، بےشک آپ جاتے جاتے ہمیں یہ درس دے گئے کہ،
کبھی بجنے نا دینا اس_ آگ کو
آگ سینوں میں ہم جو لگا کے چلے