آج کا بلوچستان
داد جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
بلوچستان خطے میں ایک ایسا جنگ زدہ مقبوضہ علاقہ ہے جہاں کے باسی ہر روز ایک نئے کرب کا شکارہوتے ہیں۔ ان اذیت ناک حالات کا لوگ اب عادی ہو چکے ہیں۔ بلوچستان میں ریاستی اداروں کی جنگی جرائم اس حد تک جا پہنچے ہیں کہ معصوم بچے اور خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں۔ بچوں اور خواتین کا سیکوریٹی فورسز کے ہاتھوں تذلیل اور ان پر تشدد روز کا معمول بن چکا ہے اور اب تک کئی خواتین قابض نے حراست میں لے کر لاپتہ کئے ہیں۔ نوجوانوں کو حراست میں لے کر ان کو حیوانیت کانشانہ بناکر اوران کی مسخ لاشوں کو پھینکنے کی تعداد ہزاروں تک جاپہنچا ہے۔ پھول جیسے بچے بھی اس درندے کی حیوانیت کا بھینٹ چڑھ رہے ہیں، اسکی تازہ مثال کچھ مہینے پہلے معصوم آفتاب، عاصم اور ساجد کی اغواء نما گرفتاری ہے۔
بلاشبہ اس وقت بلوچستان میں ریاستی ننگی جاریت اپنی عروج پر ہے۔ نام نہاد پاکستانی میڈیا، عدلیہ اورسول سوسائٹی کے ادارے اس ریاستی طاقت اور بدمعاش فوج کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ آج بلوچستان کے دیہی علاقے ہوں یا شہری ،قصبے ہوں یا پہاڑی علاقے ،بلو چ جہاں بھی ہیں، ریاستی فورسز کے دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے، جہاں بھی فوج کا جی چاہتاہے دن کی روشنی میں گھروں اور بازاروں سے اٹھا کر لوگوں کو لاپتہ کر دیتے ہیں۔
ستر سالہ غلامی کی زندگی نے اہلِ بلوچستان کو ایسی وحشت میں مبتلا کردیاہے کہ بعض اوقات لوگ اپنے سائے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اٹھائے کا خوف، بچوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک ہونے کاغم، گھربار جلائے جانے کا غم، اپنی اجداد کی زمین سے کہیں دور جانے کا غم، دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بلوچ معاشرے کا کوئی بھی طبقہ محفوظ نہیں ہے۔ بزگر،چرواہا ،اساتذہ ،ڈاکٹر ،انجینئر ، دانشور حضرات بھی اسی خوف میں مبتلا ہوکر اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے یں۔ بلوچستان میں ایسا ایک بھی گھر نہیں جو اِن کربناک حالات سے نہ گذرا ہو اور وہاں ماتم کا سما نہ ہو اور اپنے پیاروں کوکندھا نہ دیا ہو۔
خوف کا عالم یہ ہے کہ ماں اپنے لخت جگروں کو کھونے کے ڈر سے اپنے آپ سے دور بھیجتی ہیں۔ بلوچستان میں بسنے والوں کی زندگی قیامت کے مناظر پیش کر رہے ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں مفلوج ہو گئی ہیں۔ ہر علاقہ میدان کربلا بن چکا ہے، جہاں روز حسین شہید ہوتے ہیں۔ بازاریں سنسان ہوگئے ہیں، جہاں زندگی کا چہل پہل اور گہماگہمی تھی، اب موت کا ننگا ناچ اور قبضہ گیر کا وحشت چھایا ہوا ہے۔
پوری سماج موت اور زیست کے درمیان اپنی بقاء کی جنگ لڑرہاہے، ہزاروں ماں اور بہنیں ان کربناک لمحات سے گذر کر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، گویازندگی منجمد ہو گئی ہے، بس کچھ سانسیں باقی ہیں اور یہ سانسیں بھی اپنی نہیں کیا بھروسہ کہ پاکستان کے فرشتے کب سانسیں چھین لیں۔
اپنی غیرت کے لئے مرمٹنے والے بلوچ سماج میں ہمیں یہ دن بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ حمیدہ اور ماہ رنگ جیسی بہنیں اکیلے اپنی جنگ لڑ رہی ہیں، ہم یہ سمجھیں کہ دنیا کو کوسنے یا عالمی برادری کو طعنہ دینے سے ہم بحیثیت قوم اپنی گناہوں کا کفارہ ادا کرسکتی ہیں ،اکیلی بہنوں کی سڑکوں کی مارچ بحیثیت قوم ہمارے لئے کوئی اچھی تاثر کاسبب نہیں تو نہیں ہے، موت کے خوف سے ہم گھروں میں دبکے ہوئے ہیں اور بلوچ بیٹیاں روز پریس کلبوں کے سامنے اپنے پیاروں کے تصاویر اٹھاکر احتجاج کررہی ہیں اورہم محض تماشائی بن کر ماہ نگ کے ساتھ ہمدردی جتا رہے ہیں، دل ہی دل میں خوش ہیں کہ چلوہم بھی اپنا فرض پورا کر رہے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم خطرناک قسم کی غلط فہمی اورمغالطے کا شکار ہیں۔
ہمیں اچھی طرح یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم آج ماہ رنگ اورحمیدہ جیسی بہنوں کیلئے کھڑے نہیں ہوئے، تو مستقبل قریب میں بلوچستان کی ہر ماہ نگ اسی کرب سے گذرے گی۔ کیونکہ بقول ماہ رنگ بلوچ ’’ بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں مائیں اپنے بیٹوں سے زیادہ بیٹوں کے غم میں مبتلا ہیں۔‘‘