چین میں رہنے والے مسلمانوں کی جانب وہاں کی فوج کے رویے پر برطانیہ کی حکومت نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
چین کے صوبہ سنکیانگ میں متعدد افراد کو بغیر کسی مقدمے کے حراست میں لیے جانے کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ سنہ 2017 میں اپریل کے شروع میں بھی سنکیانگ کی صوبائی حکومت نے اسلامی شدت پسندوں کے خلاف مہم کے تحت اویغور مسلمانوں پر نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
ان میں لمبی داڑھی رکھنے، گھر سے باہر نقاب پہننے اور سرکاری ٹی وی چینل دیکھنے جیسی پابندیاں شامل ہیں۔
سنہ 2014 میں رمضان کے دوران مسلمانوں کے روزہ رکھنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
دور سے دیکھنے پر مغربی چین کا صوبہ سنکیانگ عراق کے دارالحکومت بغداد جیسا لگتا ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمانوں پر فوج کی کڑی نظر رہتی ہے۔
اس علاقے میں اویغور مسلمان آباد ہیں جن کی زندگی بڑی حد تک ڈر کے سائے میں گزر رہی ہے۔ سرکاری جاسوس ان کی زندگیوں میں جھانکتے رہتے ہیں۔ اگر ان سے بات کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ کھل کر جواب بھی نہیں دیتے۔
یہاں کے باسیوں سے جبراً ڈی این اے کے نمونے بھی لیے جا رہے ہیں۔ ان کے موبائل کھنگالے جاتے ہیں اور دیکھا جاتا ہے کہ کہیں وہ اشتعال انگیز میسیج تو نہیں شیئر کر رہے۔ اگر کسی پر ملک کے ساتھ غداری کا معمولی سا بھی شک ہو تو انھیں ایسی جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے جن کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم۔
غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق متعدد اویغور مسلمانوں کو بغیر مقدمات کے جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔
ہم سنکیانگ میں جہاں بھی گئے، ہمیں روک کر تلاشی لی گئی اور بعد میں بھی ہمارا پیچھا کیا جاتا رہا۔
سینکڑوں اویغور مسلمانوں کی طرح عبد الرحمان حسن چین میں اپنا گھر چھوڑ کر ترکی چلے گئے تھے۔
انھیں لگا کہ ان کے ملک سے چلے جانے کے بعد ان کی والدہ اور اہلیہ کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا، لیکن آخری اطلاعات کے مطابق ان کی والدہ اور اہلیہ کو جیل میں ڈال دیا گیا۔
عبد الرحمان نے بتایا کہ ’صبح سے شام تک انھیں ایک کرسی پر بٹھا کر رکھا جاتا ہے۔ میری ماں کو اس طرح کی سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔ میری اہلیہ کا قصور صرف اتنا ہے کہ ان کا تعلق اویغور برادری سے ہے۔ صرف اسی وجہ سے اسے جیل بھیج دیا گیا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ اب زندہ بھی ہیں یا مر گئیں۔ میں چاہتا ہوں کہ چین کی حکومت انھیں تکلیف دینے کے بجائے مار ڈالے۔ گولیوں کے پیسے میں دے دوں گا۔‘
دوسری جانب چین کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ چین نے حال میں دنیا بھر میں ہونے والے شدت پسند حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسلامی شدت پسندوں کو چین کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔
اویغور مسلمان کون ہیں؟
سنکیانگ میں انتظامیہ اور مقامی اویغور برادری کے درمیان تصادم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اویغور اصل میں مسلمان ہیں لیکن تہذیب کے اعتبار سے وہ خود کو وسطی ایشیا کے ممالک سے نزدیک سمجھتے ہیں۔
صدیوں سے اس علاقے کی معیشت کاشتکاری اور تجارت پر مبنی رہی ہے۔ یہاں کے قصبے مشہور شاہراہِ ریشم کے اہم مراکز رہے ہیں۔
20ویں صدی کے شروع میں اویغوروں نے کچھ عرصے کے لیے آزادی کا اعلان کر دیا تھا، لیکن سنہ 1949 میں کمیونسٹ چین نے اس علاقے پر پوری طرح قبضہ کر لیا۔
اویغوروں کو کیا شکایات ہیں؟
بیجنگ کا الزام ہے کہ رابعہ قدیر سمیت کئی جلاوطن رہنما مسئلے کو بڑھا رہے ہیں۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی پالیسیوں میں آہستہ آہستہ اویغوروں کی مذہبی، معاشی اور تہذیبی زندگی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کا روہنگیا کے خلاف مظالم کی تفتیش کا فیصلہ
بیجنگ پر الزام ہے کہ سنہ 1990 کی دہائی میں سنکیانگ میں ہونے والے مظاہروں اور اس کے بعد سنہ 2008 میں بیجنگ اولمپک کے دوران ہونے والے مظاہروں کے بعد حکومت نے انھیں دبانے کی مہم اور تیز کر دی تھی۔
گذشتہ دہائی میں اہم اویغور رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا یا ان پر شدت پسندی کے الزامات لگائے جانے کے بعد انھوں نے دوسرے ممالک میں پناہ لے لی۔
بیجنگ کا نقطۂ نظر
چینی حکومت کا کہنا ہے کہ اویغور شدت پسند ملک سے الگ ہونے کے لیے بم حملے، بدامنی اور توڑ پھوڑ کی کی تحریک چھیڑے ہوئے ہیں۔
امریکہ میں نائن الیون حملے کے بعد چین میں اویغور علیحدگی پسندوں کو القاعدہ کا حامی ثابت کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔
چین کہتا رہا ہے کہ انھوں نے افغانستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ حالانکہ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے پیش کردہ ثبوت ناکافی ہیں۔
افغانستان پر حملے کے دوران امریکی فوج نے 20 سے زیادہ اویغوروں کو پکڑا تھا۔
انھیں بغیر الزامات ثابت کیے گوانتانامو بے کی جیل میں قید رکھا گیا۔ وہاں سے رہا ہونے کے بعد وہ دیگر ممالک میں جا کر بس گئے۔