چین بلوچ علیحدگی پسندوں سے براہ راست رابطے میں ہے – فنانشل ٹائمز

845

چین بلوچ علیحدگی پسندوں سے براہ راست رابطے میں ہے – فنانشل ٹائمز

(دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ)

مشہور برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز نے پیر کو شائع ہونے والے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہیکہ چین پچھلے پانچ سال سے بلوچستان میں “قبائلی علیحدگی پسندوں“ سے چائنا پاکستان ایکنومک کوریڈور کو تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں رابطے میں ہے۔

فنانشل ٹائمز نے اس رپورٹ میں tribal separatists یعنی قبائلی علیحدگی پسندوں کا لفظ استعمال کیا ہے۔

فنانشل ٹائمز نے ان رابطوں کا علم رکھنے والے تین افراد کے توسط سے کہا ہیکہ بیجنگ بلوچ مزاحمتکاروں سے براہ راست رابطے میں ہے تاکہ سیپیک جس کے زیادہ تر پروجیکٹس بلوچستان میں ہیں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ایک پاکستانی سرکاری آفیسر نے کہا ہیکہ چائنا کو اس سلسلے میں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور بلوچ مزاحمتکار سی پیک پر گو کہ چھوٹے حملے کرتے رہے ہیں لیکن وہ باقاعدہ کسی بڑے حملے سے گریزاں ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ سیپیک کی وجہ سے چائنا کو دنیا کے تنازعات سے بھری خطوں میں دخل اندازی کرنا پڑا ہے اور پاکستان کاروبار اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے دنیا کے خطرناک ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ پچھلے سال مئی میں گوادر کےقریب ہونے والے حملے میں کم سے کم دس مزدوروں کو نامعلوم افراد نے قتل کردیا تھا۔

واضح رہے کہ اس حملے کی زمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہیکہ پاکستانی حکام نے ان رابطوں کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہیکہ گو کہ پاکستان کو ان رابطوں اور ان میں طے ہونے والے معاہدوں کے تفصیلات تو معلوم نہیں لیکن ان رابطوں کے نتیجے میں قائم ہونے والے امن سے پاکستان اور چائنا دونوں کو فائدہ حاصل ہوگا۔

چائنا نے ان رابطوں کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا ہے تاہم بی بی سی کو دینے والے ایک حالیہ انٹرویو میں چینی سفیر نے دعویٰ کیا تھا کہ بلوچ مزاحمتکار اب سیپیک کیلئے خطرہ نہیں رہے۔

فنانشل ٹائمز نے یہ ظاہر نہیں کیا ہے کہ یہ رابطے کن بلوچ رہنماؤں کے ساتھ کئے جارہے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ کو دیئے گئے ایک حالیہ خصوصی انٹرویو میں بلوچ لبریشن آرمی کے سینئر کمانڈر اور بلوچ رہنما اسلم بلوچ نے سی پیک کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ سی پیک نا صرف اس خطے کے امن کیلئے بلکہ بلوچ قوم کے بقاء کیلئے بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اس خطرے سے نمٹنے کیلئے مزاحمتی حوالے سے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت پر تمام مزاحمتی ساتھیوں میں اتفاق پایا جاتاہے، اس حوالے سے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے پر کام ہورہا ہے، خصوصاً بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ساتھیوں کے بیچ اس بابت اشتراکِ عمل پایہ جاتہ ہے اور دیگر آزادی پسند مزاحمتی ساتھیوں سے بھی رابطے میں ہیں۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ جلد از جلد اس حوالے سے عملی کام کو ترتیب دیکر آگے بڑھائیں۔

بی این ایم کے چیئرمین اور بلوچ رہنما خلیل بلوچ نے بھی دی بلوچستان پوسٹ کو دیے گئے اپنے خصوصی انٹرویو میں سی پیک کے بارے میں کہا تھا کہ اب تک بلوچ نے سی پیک کے خواب کو خواب تک ہی محدود رکھا ہے۔جب سے نام نہاد سی پیک کا اعلان ہوا ہے تب سے اب تک ہم نہیں دیکھتے کہ چین کسی بھی طرح سے یہاں پر سرمایہ کاری کر پائی ہے۔ جب ستر ٹرالر اس روٹ سے گزارے گئے تھے، تووہ بھی فوج کی فضائی نگرانی میں، اس پر بھی بلوچ سرمچاروں نے مختلف مقامات پر حملے کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، کہنے کا مقصد یہ کہ ان سب کو ہم سرمایہ کاری نہیں کہہ سکتے۔ ہاں یہ بات ہے کہ چین کے بلوچستان میں معاشی مفادات سے زیادہ عسکری مفادات ہیں اور اس بات کی نشاندہی بلوچ قیادت ایک دہائی قبل کرچکی ہے، چین یہاں پر اپنا مضبوط نیول بیس بنانا چاہتی ہے اور یہیں سے وہ نہ صرف انڈیا کے خلاف بلکہ دنیا بھر میں طاقت کے توازن میں بگاڑ لانا چاہتی ہے، یہی واحد چیز ہے جسے ہمیں سمجھنا ہوگا۔ باقی اس روٹ کو یا کہ سی پیک کو اقتصادی کہنا درست نہ ہوگا، ہاں یہ روٹ معیشت کے لیئے یا پھر اقتصادی مقصد کے لیئے استعمال ہو سکتی ہے، مگر جب تک بلوچ نہ چاہیں تب تک ہرگز نہیں۔ بلوچ ایسے کسی بھی منصوبے کا بھر پور مزاحمت کریں گے، کیونکہ میں سمجھتا ہوں یہ بلوچ کے زیست و مرگ کا معاملہ ہے اور بلوچ مضبوطی کے ساتھ اسکے خلاف کھڑا رہے گا۔

بلوچ ریپبلکن آرمی کے ایک اہم کمانڈر گلزار امام بلوچ نے بھی دی بلوچستان پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہی خیالات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے اس سامراجی منصوبے کے خلاف بلوچ سخت مزاحمت کررہے ہیں۔ شاید بے دریغ کشت و خون سے پاکستانی فوج سی پیک کو پایہ تکمیل تک پہنچا بھی دے لیکن بلوچ وطن میں بلوچ مرضی کے بغیر امن کا ضامن کون بن سکتا ہے؟ بلوچ اس وقت دو سامراجی قوتوں چین اور پاکستان سے بیک وقت لڑ رہے ہیں اور میں کہوں گا کہ ہم یہ لڑائی جیت رہے ہیں کیونکہ سرمایہ دار سیکیورٹی کے مخدوش صورتحال کے سبب بلوچستان میں سرمایہ کاری سے انکاری ہیں۔ چین بھی اس خطے میں امن نا ہونے کے سبب اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ بہر حال ہمیں مزید صف بندیوں کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان اس نام نہاد سی پیک کو کامیاب بنانے کیلئے بلوچوں کو مکمل طور پر کچلنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔