پاکستان کے اندر فوجی آپریشنز کے متعلق نہیں سوچا ہے : امریکہ

268

ایک سینیر امریکی جنرل نے اسلام آباد کو یقین دلایا ہے کہ امریکہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر کسی فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔

ایک اور امریکی جنرل نے کہا ہے کہ اس کے باوجود کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان افغانستان میں کامیابی کے طریقہ کار پر شدید اختلافات موجود ہیں، پنٹاگان نے اسلام آباد پر زور دیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں دہشت گردوں کو شکست دینے کے لیے وہ امریکی کوششوں میں شامل ہو جائے۔

امریکی جوائنٹ سٹاف ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل کینتھ میکنزی نے جمعرات کی سہ پہر پنٹاگان میں ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اندر فوجی آپریشنز کے متعلق نہیں سوچا جا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس حکمت عملی کا تعلق بنیادی طور پر اس خطے سے ہے اور پاکستان جغرافیائی لحاظ سے بہت سی مختلف اور اہم چیزوں کے سنگم پر واقع ہے۔ پاکستان اس حکمت عملی کا ایک بنیادی حصہ ہے۔

امریکی فوج کی جانب سے یہ یقین دہانی وہائٹ ہاؤس کے منگل کو جاری ہونے والے اس بیان کے بعد کرائی گئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی فوج کو پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

اس بیان سے اسلام آباد کے اعلی حلقوں میں تشویش پیدا ہوئی اور پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا کہ ہم نے اس بیان کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔

وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہم امریکہ پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور اس کی حاکمیت اعلی کا احترام کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے جن کا کوئی بھی مفہوم نکالا جا سکتا ہے، بہتر یہ تھا کہ پاکستان سے مشاورت کی جاتی۔

خرم دستگیر نے یہ بھی کہا ہے کہ اس طرح کے بیانات ہمیں افغانستان میں امن کے عمل سے دور لے جا رہے ہیں۔

پنٹاگان کی نیوز بریفنگ میں ایک نامہ نگار نے لیفٹیننٹ جنرل کینتھ میکینزی سے وہائٹ ہاؤس کے بیان کے متعلق سوال کیا کہ پاکستانی میڈیا میں اسے اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے کہ امریکہ ممکنہ طور پر پاکستان کے اندر حملے کر سکتا ہے۔

جنرل میکنزی کا کہنا تھا کہ ہم مختلف طریقوں سے پاکستان کا تعاون اور افغانستان کے اندر کارروائیوں کے حوالے سے معاونت حاصل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ جنوبی ایشیا کے لیے امریکی حکمت عملی میں پاکستان سے کس طرح نمٹا جائے گا، واضح کیا، ‘نہیں, ہم پاکستان کے اندر فوجی کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے۔’

پنٹاگان کی چیف ترجمان ڈانا ڈبلیو وہائٹ نے کہا کہ ہم نے جو حکمت عملی تخلیق کی ہے اس میں پاکستان کے لیے علاقے میں سرگرم دہشت گردوں کو شکست دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کا موقع موجود ہے۔

وہائٹ نے کہا کہ ہم یہ بات کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے پاس ایک موقع موجود ہے۔ پاکستان دہشت گردی کا نشانہ رہا ہے اور اس نے دہشت گردی کی حمایت کی ہے۔ اور ہم منتظر ہیں کہ پاکستان موثر انداز میں ہمارے ساتھ شریک ہو، اور ہم چاہتے کہ پاکستان وہ چیزیں کرے جن کی دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے ہمیں ضرورت ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک موقع ہے اور ہمیں توقع ہے کہ پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھائے گا۔

تاہم انہوں نے کئی پاکستانی عہدے داروں کے اس بیان سے اتفاق نہیں کیا کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ وہائٹ کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان میں ناکام نہیں ہوا۔

جب ان سے کابل میں دہشت گرد حملوں میں اضافے اور پاکستان کی فوجی امداد معطل کرنے کے تعلق سے متعلق سوال کیا گیا تو پنٹاگان کی چیف ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان دل برداشتہ ہو چکے ہیں، وہ قاتل ہیں، وہ معصوم شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔

اس سےقبل بدھ کے روز دبئی میں یو ایس سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے کہا تھا کہ جنوبی ایشیا کی سلامتی سے متعلق امریکی حکمت عملی کی کامیابی کے لیے پاکستان بدستور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ اس حوالے سے ہمارے اختلافات رہے ہیں لیکن افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان بدستور اہمیت رکھتا ہے۔