جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے معاون امریکی وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام بالآخر سیاسی حل پر ہی منحصر ہے اور پاکستان کو اس حل کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔
کابل میں افغان ٹی وی چینل ‘طلوع’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے واضح کیا کہ سیاسی حل سے پیشتر امریکہ طالبان پر دباؤ اور افغان سکیورٹی فورسز کی معاونت جاری رکھے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ خطے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی بڑی واضح ہے اور امریکہ اس حکمت عملی کو پاکستان کے لیے ایک موقع تصور کرتا ہے۔
ان کے بقول پاکستان کے لیے فوجی امداد معطل کیا جانا واشنگٹن کے اس عدم اطمینان کی عکاسی کرتا ہے جو پاکستان کی طرف سے اپنی سرزمین پر طالبان کو شکست دینے کے لیے ناکافی کوششوں کے باعث پیدا ہوا۔
تاہم ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ امریکہ دونوں ملکوں کے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے پاکستان سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے اور امن سے افغانستان اور پاکستان دونوں کو ہی فائدہ ہو گا۔
پاکستان امریکہ کے ان دعوؤں کو مسترد کرتا ہے کہ وہ اپنے ہاں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کر رہا ہے اور اسلام آباد کا موقف ہے کہ وہ افغانستان میں امن و سلامتی کے عمل کی حمایت کے عزم پر قائم ہے۔
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ افغانستان کے تنازع کا فوجی حل ممکن نہیں اور یہ صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
دفاع اور سلامتی کے امور کے سینیئر تجزیہ کار طلعت مسعود کہتے ہیں کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا کردار کلیدی ہے اور اس کا ادراک دیگر ممالک کو بھی ہے اور اسی وجہ سے پالیسی پر اختلافات کے باوجود امریکہ کی کوشش ہو گی کہ پاکستان کو اس امن عمل میں شامل رکھا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ “اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دفعہ پاکستان اور امریکہ کی پالیسیوں میں اختلاف بھی رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دونوں کے مقاصد میرے خیال میں بالکل یکساں ہیں اور دونوں چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن آئے لیکن طریقہ کار ذرا مختلف ہے۔”
طلعت مسعود کا مزید کہنا تھا کہ ان اختلافات کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں کے مقاصد میں بھی کوئی خاص اختلاف ہے۔
ان کے بقول امریکہ افغان طالبان سے بات چیت تو کرنا چاہتا ہے لیکن دباؤ کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور سردست وہ طالبان کے لیے کسی بھی طرح کی رعایت دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔