ٹک تیر سے آخری تیر تک ــ سیم زہری

898

استاد ضیاء آپ کو تب سے جانتا ہوں جب آپ بی ایس او میں تھے. خشک سیاہ ہونٹ، زرد آنکھیں جیسے کبھی آرام نہیں دیکھے ہوں. لمبے بال لیکن ترتیب سے کنگھائے ہوئے. پاؤں میں پرانی ٹوٹی ہوئی چپل کسی بھی غریب زادے کی طرح وطن کی آزادی کا خواب دل میں لئیے بی ایس او حب زون کے دوستوں کی سرکل میں بیٹھے گہرے دماغ سے لیکچر سن رہا ہے.
میں ضیاء کو اپنا استاد اس لیے مانتا ہوں کہ وہ لوگوں کے دماغ پڑھتا تھا. وہ چلتے پھرتے انسانوں کے قدموں کو پڑھتا تھا. وہ لوگوں کی آنکھوں کو پڑھنے کا ماہر تھا.
بی ایس او کی سرکل و دیگر تنظیمی کاموں سے فارغ ہو کر وہ اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے لیے پی سی او چلاتا تھا. محنت مزدوری کرتا تھا.
باتوں سے اتنا دلچسپ انسان تھا کہ میں سردیوں میں جب بھی حب چوکی جاتا تو صرف اس کی دیدار کرنے جاتا. پہلے ہی دن ساکران روڈ کا چکر لگاتا. پھر یہ سلسلہ حب چوکی سے واپسی تک چلتا رہتا.
یار ضیاء کبھی زہری بھی آیا کرو ابھی تم لوگ لاس (لسبیلہ کے رہنے والے) بن گئے اپنا وطن یاد بھی نہیں کرتے حسب معمول ہر سال میری یہی درخواست ہوتی اور وہ ہمیشہ کہتا پورا بلوچستان میرا وطن ہے.
اپنے گھریلو مالی مشکلات کو کم کرنے کوئٹہ شیخ زاہد ہسپتال میں کام کیا لیکن کیا کسی وطن پرست کو صرف اپنے گھرانے کی کفالت کرکے سکون مل سکتا ہے؟
اسی بے چینی نے اسے وہاں بھی ٹکنے نہ دیا. وہیں سے چل پڑا پھر کبھی واپس نہیں لوٹا.
اگر گھر کو آباد کرنا ہے تو پہلے وطن کو آزاد کرنا ہوگا…….. اس فلسفے کا پیروکار بولان قلات پارود شور سے ہوتے ہوئے جھالاوان کا کمان سنبھالنے پہنچ گیا. اس سے پہلے غالباً دو ہزار چودہ میں کسی گمنام سرمچار کو دشمن کا ہیلی کاپٹر مار گراکر حملہ ناکام بناتے ہوئے تنظیم کی جانب سے “ٹک تیر” کا خطاب ملا تھا لیکن کسی کو پتہ نہیں تھا کہ یہ ٹک تیر کون ہے. وطن کے عاشق کبھی اپنے نام نمود نمائش و شہرت کے لیے پریشان نہیں ہوتے بلکہ وہ صرف اپنے کام کو جاری رکھتے ہیں. وہ کبھی مڑ کر نہیں دیکھتے بلکہ ہمیشہ آگے بڑھتے رہتے ہیں.
اس کے بعد میں نے اپنی کم علمی محدود سوچ کے ساتھ سوشل میڈیا میں لکھنا شروع کر دیا چند ہی دنوں میں کسی گمنام فیس بک آئی ڈی سے کسی نے میسج کیا میرے کام کو سراہا. پھر یہ آئی ڈی مختلف ہوتے رہتے رابطے چلتے رہے اور مجھے حوصلے ملتے گیے. کبھی میں نے نہیں کہا کہ دوست آپ کون؟ نہ ہی کبھی ان دوست نما گمنام آئی ڈیؤں نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کون ہو. صرف مجھے کہتے رہے سنگت ہمت کرو لکھو کوشش کرو لکھو. میری رہنمائی کی. میری حوصلہ افزائی کی مجھے عزت عطا کی.
پھر اس دوران سالوں بیت گیے ہم نے کبھی ایک دوسرے سے اپنا تعارف نہیں کرایا. ابھی دو مہینے پہلے کی بات ہے شعبان نامی آئی ڈی سے میسج کرکے کہا سیم اگر زہری میں ہو تو مل لو. اور کتنا تڑپاؤ گے؟
ہم فرسودہ زہن کے لوگ فرسودہ نظام و روایات کے طابع ایک ایسے سماج کے باسی ہیں جو ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں. ایک ہفتے تک سوچنے کی مہلت لی. ہفتے بعد شعبان نے پھر رابطہ کیا…. پوچھا کیا پروگرام بنا؟ پھر بھی پسماندہ زہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے پوچھا آپ کون ہو؟
کہنے لگا آپ نے ایک ہفتہ اسی سوال کے لیے ضائع کردیا؟……. ایک وطن پرست ہوں اور یہی میری پہچان ہے…. اس سے آگے میں کچھ نہیں….. لیکن میں بضد تھا کہ آپ مجھے کچھ سمجھا دو پھر میں ملوں گا….
اس نے کہا میں ضیاء بلوچ………..
حب چوکی والا؟ میں نے جھٹ سے پوچھا…..
تمہیں تو دیکھنے کے لیے کتنے سالوں سے ٹرپ رہا ہوں اور آج آپ مجھے بلا رہے اور میں بدنصیب پھر بھی سوال کیے جا رہا ہوں کہ کون ہو. آپ مجھے فوراً بتاؤ کہاں ہو اُڑ کر چلا آجاؤں.
ایک مخصوص جگہ کا نام بتا کر بلایا. پہنچتے ہی پہچان لیا پھر وہ باتیں کرتا رہا ماضی کو یاد کرتا رہا اور میں سنتا رہا. سننے سمجھنے کے لیے دماغ کا موجود ہونا لازمی ہے لیکن اس وقت ایک ایسے انسان سے میں مل رہا تھا جسے دیکھتے ہی میرا دماغ ماؤف ہو چکا تھا. مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ایک سرمچار استاد کمانڈر مجھے لیکچر دے رہا ہے. ہائے میں کتنا خوش نصیب ہوں جو تیری قربت ملی.
اس ایک مختصر سی ملاقات میں پچھلے دس سالوں کی جدائی کو سمیٹ لیا. ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم کئی سالوں سے ساتھ رہے ہیں. ہر روز ملتے رہے ہیں. کل بھی ملے ہیں اور آج پھر سے مل رہے ہیں. اس کے بعد مجھے ہر وقت بلا وجہ نہ ملنے کی تاکید کرکے خدا حافظ کردیا.
آج میں اسی ایک مختصر سی ملاقات کی سحر میں گم ہوں. میں آج آپ کی جرات بہادری جوانمردی پر نازاں ہوں. آج میں فخر سے اپنا سر اٹھائے چلتا ہوں کہ آپ میرے دوست سنگت ہمسفر ہو. اگر یہ مختصر سی ملاقات نہ ہوتی اور آپ زہری میں شھید ہو کر سپرد گل زمین ہوتے تو شاید میں اپنے آپ کو معاف نہ کر سکتا لیکن آج میں آپ کو محسوس کر سکتا ہوں. آپ کو سن سکتا ہوں. آپ کو درختوں کے تازہ تازہ اُگتے پتوں کی ترو تازگی میں دیکھ سکتا ہوں. آج میں آپ کو بادام کے سفید پھولوں کی خشبو میں پاتا ہوں. آج بھی اس راہ سے گزر کر تجھے کسی اور دوست کو لیکچر دیتے دیکھ سکتا ہوں. زہری جیسے پسماندہ زہنیت کے لوگوں کے سماج میں آپ کا جنم لینا پھر گھوم پھر کر واپس اسی گل زمین میں آسودہ خاک ہونا صرف قدرت کا کرشمہ ہو سکتا اور کچھ نہیں.
ہم بے حس لوگوں کے درمیان آپ لوگوں کا جنم لینا، ہمارے درمیان رہ کر جدو جہد کرنا پھر شھید ہو کر خون سے لت پت جسموں کے ساتھ مردہ خانوں میں پڑے رہنا یقین جانو آپ لوگوں کی طرف سے جاتے جاتے ہمارے لیے آخری لعنت سے کم نہیں. اس سے پہلے پارود آپریشن میں ہم بے حس بے ضمیر لوگوں نے شھید کی جسد خاکی کو دھوپ میں پڑے رہنے دیا. پھر شھید امتیاز کی لاش کو دشمن کے آثرے پر بے گور کردیا. آج آپ اور بارگ ہمارے منہ پر تھوک کر چلے گئے کہ ہم نے آخری گولی اپنے لیے بچا کر آخری سانس تک دل و دماغ میں تمہیں اور وطن کو سمائے رکھا. جنگ کے میدان میں گولیوں کی تھر تھراہٹ میں بھی صرف یہی سوچا کہ یہاں سے بچ کر پھر بھی اپنے وطن کی خدمت کروں گا.
لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ ان بے حس لوگوں کے درمیان جان دے رہا ہوں جو میری لاش کو وارثی بھی نہیں کریں گے. شھید بارگ کی بہن خاران سے چل کر آتی ہے تاکہ اپنے بھائی کی لاش کو دستی کر سکوں گلے لگا سکوں کچھ دیر دیدار کرکے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھا سکوں لیکن زہری بڑے بڑے ترم خانوں معتبروں کے علاقے میں ایک مرد بھی ایسا موجود نہیں جو آگے بڑھ کر کہہ سکے کہ اس لاش کا وارث میں ہوں. اس نے میری نسلوں کے لیے اپنا آج قربان کردیا.
شھید بارگ جان شھید دلجان نے جب اپنی اپنی بندوقوں سے ایک ایک گولی نکال کر آخری بار ایک دوسرے کو دیکھا ہوگا پھر گولی کی طرف دیکھا ہوگا پھر ایک نظر فضا میں بلند کرکے سوچا ہو گا ہم جتنے دن زندہ رہے اے وطن تیری خدمت کی یہی ہمارا فرض تھا.
ایک ایسے وقت میں ایک دونوں جہد کاروں نے میگزین سے ایک ایک گولی نکال کر اپنے لیے الگ سے جیب میں رکھ دیا جب بہت سارے ہم سفر سرنڈر کر رہے تھے. دو سرمچار آخری تیر اپنے لیے یہ سوچ کر نکال رہے ہیں کہ کہیں مس فائر نہ ہو جایے.
زمین زادوں کا شیوا یہی ہے کہ اپنے آپ کو ہر امتحان کے لیے تیار رکھتے ہیں تاکہ گل زمین ہم پر ناز کرے.