بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے پاکستان میں تعینات چینی سفیرژاؤژنگ کی بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حقیقی کیابلوچ مزاحمت کار تو پاکستانی ہی نہیں ہیں بلکہ وہ تواپنے ملک بلوچستان پرپاکستان کی جبری قبضہ کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔
واضح رہے کہ چینی سفیر نے کہا تھا کہ بلوچ مزاحمت کار حقیقی پاکستانی نہیں ہیں۔ بلوچ قوم نے جبری قبضہ کے خلاف مزاحمت شروع کی ہے جو ہنوذ جاری ہے۔ یہ سیدھی سی بات چینی سفیرکی سمجھ میں نہیں آتی۔ معلوم نہیں چینی سفیر کسے مخاطب کرکے طفل تسلیاں دیناچاہتاہے کہ بلوچ مزاحمت پاکستان،چین اور سی پیک کیلئے کوئی خطرہ نہیں؟
گہرام بلوچ نے کہا کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب استعماری قوتیں اپنے استحصالی منصوبوں کوترقی کے لبادے میں پیش کرکے رائے عامہ کوگمراہ کرتے تھے۔ صرف بلوچ قوم ہی نہیں خطہ کے تمام اقوام اورساری دنیا سی پیک میں چھپے چینی سامراجی عزائم کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
اگر بلوچ مزاحمت سی پیک کیلئے خطرہ نہیں ہے تو پھردنیا پاکستان اور چین کی خوشنما ترغیبات اور پروپیگنڈہ کے باوجود سی پیک میں سرمایہ کاری پر کیوں آمادہ نہیں؟ حالیہ نام نہاد گوادر ایکسپوکیوں کوئی توجہ حاصل نہیں کرپایا؟
گہرام بلوچ نے کہا کہ چین نے بلوچ قومی تحریک آزادی اورقومی مفادات کونظرانداز کرکے قابض پاکستان کی شراکت سے سی پیک جیسامنصوبہ شروع کرکے پہلے ہی بڑی غلطی کرچکاہے۔ چین کے پاس اب بھی وقت ہے کہ سی پیک میں جتنا سرمایہ بربادکرچکاہے سو کرچکا مگر مزید اپنا سرمایہ اس ناکام منصوبہ میں ضائع نہ کرے کیونکہ بلوچ اپنی قومی آزادی کی حصول اور وطن کی ایک ایک انچ کی حفاظت کیلئے ہرقسم کی قربانی دینے کیلئے تیارہیں جس کاثبوت گذشتہ دو دہائیوں سے جاری مسلح و سیاسی مزاحمت اور بے پناہ قربانیاں ہیں۔