پاکستان میں چین کے سفیر یاؤ ژینگ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں متحرک بلوچ مذاحمتی تحریک اب نہ ہی پاکستان، نہ چین اور نہ ہی سی پیک کے لئے کوئی خطرہ ہے اور پاکستان میں پہلے کی نسبت امن و امان کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے بی بی سی کو ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔
بلوچستان میں متحرک بلوچ کالعدم تنظیموں نے بارہا نہ صرف سی پیک کے خلاف بیانات دیے ہیں بلکہ کئی مرتبہ سی پیک پر کام کرنے والے مزدوروں پر حملوں کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ تاہم یاؤ ژینگ کے مطابق وہ سو فیصد پر اُمید ہیں کہ گوادر بندرگاہ ایک بین الاقوامی تجارتی مرکز بننے کے قریب ہے۔
بلوچ مذاحمت کاروں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ حقیقی پاکستانی نہیں ہیں۔ ’اگر وہ حقیقی پاکستانی ہوتے تو وہ پاکستان کے قومی مفاد میں سوچتے۔‘
یاد رہے کہ بلوچستان میں گذشتہ ایک دہائی سے بعض بلوچ مسلح تنظیمیں متحرک ہیں اور وہ خود کو بلوچستان کے قدرتی وسائل کے حقیقی وارث سمجھتی ہیں۔
چینی سفیر کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبے کے لیے پاکستان میں لگ بھگ 10 ہزار چینی باشندے کام کر رہے ہیں اور اُن کے تحفظ کے لیے وہ پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہیں۔ اُن کے مطابق سی پیک منصوبے میں 60 ہزار کے قریب پاکستانی بھی کام کر رہے ہیں۔
پاکستان میں متعین چینی سفیر کے مطابق سی پیک اب پہلے مرحلے میں ہے، جس میں اب تک 21 منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ لگ بھگ 20 مزید منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔
سی پیک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چینی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک ہمسایہ ملک افغانستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک تک پھیلایا جائے گا۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اور افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے چینی سفیر کا کہنا تھا کہ اُن کا ملک دونوں ہمسایہ ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور افغانستان میں مفاہمتی عمل کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں چینی سفیر نے کہا کہ اُن کے ملک کا افغان طالبان پر اثر و رسوخ نہیں، تاہم اُن کے قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ساتھ رابطے ہیں۔ یاو ژینگ کے مطابق اُن کے ملک نے افغان طالبان سے بار بار مذاکرات میں حصہ لینے کی درخواست کی ہیں۔