بلوچ اپنی سرزمین کے لئے نیشنلزم کی بنیادپرآزادی کی جدوجہد کررہاہے : خلیل بلوچ

251

بلوچ نیشنل موومنٹ کے تربیتی لیکچرزکے سلسلے میں بروزجمعہ 9 فروری 2018ایک پروگرام کااہتمام کیاگیاجس میں بلوچ نیشنل موومنٹ اور اتحادی تنظیموں کے کارکن اورکیڈرزنے شرکت کی۔اس پروگرام میں پارٹی چیئرمین خلیل بلوچ نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے تمام شہداء کو خراج تحسین اور اسیر سیاسی کارکنوں اورجہدکاروں کو سلام پیش کرنے کے بعد کہاکہ ا س مجلس میں بلوچ نیشنل موومنٹ اور اس کے اتحادی تنظیموں کے کارکن اور کیڈرز کی شرکت میرے سیاسی کیرئیر میں ایک یادگار دن ہے جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں گا ۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیاست ہمیشہ ایک مقصد کے لئے ہوتاہے ہمارا مقصد بلوچ قومی آزادی ہے مگر ہماری سیاست کابنیاد محبت ہے ،جو مٹی کی ، قوم کی محبت پر منحصر ہے۔ ہمیں اپنے شعور وآگاہی کے ذریعے اپنی طاقت و توانائی کو، اس جدوجہد کو منزل کی جانب لے جانے کی کوشش میں صرف کرنا چاہئے۔ ‘‘
چیئرمین خلیل بلوچ نے بلوچ قوم کے بارے میں کہاکہ ’’میں بلوچ کی تشریح اس طرح کرتاہوں کہ وہ انسان جو اپنی سرزمین، اپنے قوم کی بدحالی، زمین کی غلامی، سرزمین پہ قبضے کا احساس کرتاہے اوراس قبضے کے خاتمے اوراپنی قوم کوغلامی اور قبضے سے نجات دلانے کے لئے ایک لفظ لکھتا،بولتا یا چار قدم چلتاہے یاکہیں دشمن سے مقابلہ کرتاہے ،میں سمجھتاہوں کہ اسے ’ہم بلوچ اوربلوچیت کے دائرے میں شمارکریں ۔‘‘
’’ویسے دنیامیں بلوچوں کی آبادی لگ بھگ چارپانچ کروڑبنتی ہے لیکن اس چارپانچ کروڑمیں سے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی محبت ،اپنی سرزمین اورقوم سے رشتہ ختم ہوچکاہے ۔وہ اپنے ہی خیالات ،اپنے مفادات ،اپنی سوچ جوکہ انسانی ضروریات کو پوراکرنے سے قاصرہیں وہ نہ کسی کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں اورنہ ہی اس کے خلاف اٹھ کر آوازبلندکرسکتے ہیں لیکن اس مجمع میں جو لوگ تشریف فرما ہیں جنہوں نے اپنی سوچ اورمزاج کی تشکیل اس پیمانے پرکی ہے کہ انہیں نہ صرف اپنی تکلیف کا احساس ہوتاہے بلکہ وہ اپنے سماج ،اپنی قوم اپنی زمین ،حتیٰ کہ اپنی سرزمین کے درختوں ،جڑی بوٹیوں سے لے کر جانوروں تک سے محبت کرتاہے ۔‘‘
انقلابی صفت کے بارے میں انہوں نے کہا’’انقلابی صفت یہ ہے کہ جہاں غلط کاری ،ظلم اورجبرہورہاہے انقلابی اُس کے سدباب کے لئے ایک عمل کے سلسلہ کاآغازکرتاہے ۔انقلابی عمل انقلابی رویوں اور انقلابی مزاج سے آگے بڑھتاہے ۔بلوچ جہدکاروں کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ اپنے قوم ،اپنے ہمراہ کوذہنی طورپراس طرح تیارکرے کہ وہ طاقت کا استعما ل صحیح جگہ پر کرسکے ‘‘۔
خطے میں جاری تحریکوں اوربلوچ کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’ یہ ایک غیر معمولی خطہ ہے کہ دنیا کی طاقتوں کے کنٹرول اس خطے سے وابستہ ہے ،اوربلوچ کی خوش قسمتی کہیں کہ بلوچ اس خطے میں آبادہے جس کا جیوپولیٹیکل اہمیت بہت زیادہ ہے،ساحل،فضائیں یاخطے کے حوالے سے ایشیاء یا وسطی ایشیا کو منسلک کرنے کا سنگم ،آبنائے ہرمزکا آپ سے قربت ۔۔۔مطلب یہ کہ آپ کے خطے پر بہت بڑی سرمایہ کاری ہورہاہے اورآپ کی سرزمین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ خون بہانے کا تیارخاکے پر عمل درآمد ہورہاہے ۔خطے میں جنگیں چل رہی ہیںیہاں طالبان ہے اُسے مذہبی نظریے کے باوصف مختلف قوتوں کی بڑی مددحاصل ہے مگران کے اوربلوچ کے نظریے بنیادی فرق ہے بلوچ اپنی ہی سرزمین پر اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑرہاہے جس میں توسیع پسندی یا فاسشزم کی کوئی گنجائش موجود نہیں ۔میں سمجھتاہوں کہ دوسری بڑی طاقت بلوچ قومی تحریک ہے کہ جس سے ایک وارزون بن چکاہے ، مگر بلوچ کے تحریک اورخطے کی جاری جنگوں میں بنیادی فرق نظریے کی ہے نیشنلزم خطے میں امن کا ضامن ہے لیکن دوسرے نظریوں کے بارے میں ہم اس طرح نہیں کہہ سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ خطے کی سیاست اورتبدیلیاں ہیں۔ تبدیلیاں جو رونماہورہے ہیں یا انہیں لانے کی کوششیں ہورہی ہیں ،علاقائی طاقتیں یہاں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں لانے یا دوسری طاقتوں سے چھیننے کے لئے کھینچاتانی میں مصروف ہیں کیونکہ یہاں مختلف ملکوں کی مفادات وابستہ ہیں۔‘‘
بلوچ قومی جدوجہدکے بارے میں چیئرمین خلیل بلوچ نے کہاکہ ’’بلوچ اپنی سرزمین کے لئے نیشنلزم کی بنیادپراپنی آزادی کی جدوجہد کررہاہے جس نے آج ایک مضبوط شکل اورمستحکم رخ اختیارکیاہے۔ اس لئے کہ بلوچ کی جدوجہد کو بلوچ قوم کے اکثریت کی مددوتعاون اورہمدردی حاصل ہے ۔یقینایہ ازخود تشکیل پذیرنہیں ہوا ہے۔ یہ قربانیوں کی بدولت ممکن ہواہے ۔یہ تگ ودواورساتھیوں کے دشمن کے سامنے مدمقابل ہوکرسینہ سپر ہونے کا ثمر ہے۔ یہ بلوچ جہدکاروں کے کردارکی بدولت تشکیل پاچکاہے ‘‘۔
قومی تحریک کے بارے میں ان کا کہناتھا ’’دیکھیں، بلوچ جدوجہدنے ایک مختصردورانیے میں اپنا مقدمہ منوایاہے۔ سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ بلوچ نے یہ تسلیم کرایاہے کہ ’’بلوچ سرزمین حل طلب مقبوضہ علاقہ ہے ‘‘اوراس کاحل اوربلوچ کی نجات یقینا(قومی) آزادی ہے ۔ نہ صرف ہمارا دشمن،ہمسائے اورعلاقائی طاقتوں بلکہ دنیاکے مختلف حصوں میں یہ بات تسلیم کی جارہی ہے۔ (لیکن)ہمیں ایک ایسی پُرمہرماحول کا تخلیق کرناہے کہ وہ آلائشوں سے پاک اورتمام چیزوں سے بالاتر ہو۔بلوچ قوم جدوجہدمیں کمٹمنٹ اتنامضبوط ہے کہ وہ ہمہ قسم کی قربانیوں کے لئے تیارہے ،ہرشئے داؤپرلگانے کے لئے تیارہے ۔کسی کا اولاد ماراجاتاہے ۔۔۔کسی کا والد اٹھایا جاتاہے۔۔۔کسی کی بہن اٹھایا جاتاہے ،کسی کا پوری خاندان قربان ہوتاہے اس کے باوجودوہ مسکراہٹ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑاہے۔ یہ ایک ایسی محبت ہے کہ جواپنے جسم و روح پر چبھنے والی کانٹوں کو خاطرمیں نہیں لاتاہے ۔ اسے مزیدمضبوط کرنے کی ضرورت ہے ‘‘
چیئرمین خلیل بلوچ قومی آزادی کے بارے میں رویوں کے تناظر میں سوال اٹھاکہ ’’آزادی کیاہے ؟،آزادی کا معانی کیاہے؟آیا دشمن کو اپنی سرزمین سے بیدخل کرناآزادی کہلاتاہے ؟خوداقتدارمیں آنا،اپنی کرنسی ،اپناجھنڈا،اپنی فوج اوراپنے اختیارکانام آزادی ہے ؟حادثات آتے ہیں عالمی یا علاقائی سیاست تبدیل ہوتاہے ،شکست و ریخت آتے ہیں ،نئی طاقتیں اورنئی ریاستیں وجود میں آتی ہیں ۔ آیا ان حادثات یا تبدیلیوں سے بننے والے ریاست بنتاہے تو ہم قوم سے کئے گئے کمٹمنٹ پر پورا اترسکتے ہیں ؟،ہم اسے انصاف فراہم کرسکتے ہیں؟‘‘۔۔۔۔۔ آزادی کی تشریح کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’آزادی اُس خوبصورت اوردلکش رویے کانام ہے کہ اُس آزادی کا برورداورثمرقوم اورراج کو مل جائے۔کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمارا رویہ بھی حاکمانہ ہو۔ ہمارارویہ اپنی قوم کے ساتھ مہرومحبت پر استوار ہو۔ قومی آزادی کے تقاضوں کو پوراکرنا بلوچ جہدکار یا بلوچ سیاسی کارکن کی ذمہ داری ہے ‘‘۔
پارٹی چیئرمین نے تحریک میں وارلارڈ ذہنیت کے بارے میں کہا کہ ’’مسائل اور پیچیدگیوں کا حل شعورمیں پنہاں ہے ،شعورطاقت کو صحیح راستہ دکھائے گا ورنہ میں ایک وار لارڈ بن جاتاہوں ۔اس خطے کی ہم بات کریں تویہاں سینکڑوں کے حساب سے وارلارڈ بن چکے ہیں یا بنائے جاچکے ہیں ۔ جنہیں دنیااپنے مفادات کے لئے بناتا ہے‘‘۔
بلوچ نیشنلزم اور عالمی طاقتوں کے بارے میں چیئرمین نے وضاحت کی کہ ’’ دنیا کے لئے تکلیف دہ شئے نیشنلزم ہے ۔نیشنلزم میں انسان اپنی زمین ،اپنی قوم، اپنے وسائل سے جنون کی حدتک محبت رکھتاہے ،اپنے مفادات پر کسی بھی عنوان پرسودابازی نہیں کرتا، مصلحت کا شکارنہیں ہوتا ،(اس لئے) نیشنلسٹ دنیاکے لئے بہت کم قابل قبول ہوتے ہیں۔ لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیامیں نیشنلزم کا رجحان بڑھ رہاہے ۔ماضی کا سپرطاقت جوسوویت یونین کے نام سے جاناجاتاتھا،دنیاکاسب سے بڑاسوشلسٹ بلاک تھا۔ سویت یونین، آج نیشنلزم میں کنورٹ ہورہاہے۔ وہاں سوشلزم شکست وریخت سے دوچارہوتاہے اور وہاں قومی ریاستیں بن جاتے ہیں۔ اگر آج کوئی سپرطاقت مانا جاتاہے، امریکہ ،ایک امپریلسٹ اورسرمایہ دارانہ ملک ہے۔ اس کا سرمایہ دارانہ مزاج ہے اورسرمایہ دارانہ معیشت ہے ۔آج وہ بھی نیشنلزم کی طرف بڑھ رہاہے۔‘‘
بلوچ قومی تحریک کا جائزہ لیتے ہوئے ان کا کہناتھا ’’ بلوچ قوم چونکہ ہزارہاسالوں کا ماضی اورایک تاریخ رکھتاہے ،بلوچ کی (قومی ) زندگی اوروجود ختم نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ اورسبب یہ کہ ہے کہ بلوچ نے نیشنلزم کے تقاضوں اورنیشنلزم کے تشریح پر اُترنے کی کوشش کی ہے ۔بلوچ قوم نے اپنی قومی ضرورت اور قومی مفاد ات، قومی زمین ،قومی جغرافیہ کے لئے جنگ لڑی ہے۔ قربانیاں دی ہیں اور ثابت کیاہے کہ ہزاروں سالوں سے جنگ اور شہادتیں بلوچ کو ختم نہیں کرسکی ہیں۔ دنیامیں کسی بھی قوم کوموت ختم نہیں کرسکتی ہے ۔قوم اُس وقت ختم ہوتے ہیں جب قوموں میں زانت ،ادراک اوراحساس ختم ہوجاتاہے ۔بلوچ قوم اوربلوچ جہدکاروں میں وہ احساس شدت کے ساتھ موجو دہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ قوم کثیرالجہتی محاذپر جد و جہد کر رہاہے ۔ (یادرہے کہ)ہم صرف ایک ریاست ،ایک ریاست کی فوج کے خلاف جنگ نہیں لڑرہے ہیں۔ ایک ریاست (اوراس )کے تمام اداروں سے جنگ لڑرہے ہیں۔ہماری جنگ بہت چیزوں سے ہے۔ اپنے ہی سماج میں اپنے خلاف مستعمل مختلف عناصرسے جنگ ہے ۔اُن غلط روایات اورفرسودہ نظام سے جنگ ہے کہ جونظام اورروایات آنے والے وقتوں میں آزادی کاشرف اورثمراپنے لوگوں کوپہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔وہ خطے کی طاقتوں سے لڑرہاہے ‘‘۔
قومی تحریک میں پارٹی، اداروں اورفلاحی ریاست کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ رہی ہے کہ (پیشروؤں نے) تنظیم نہیں بنائی ۔تنظیم کے عدم تشکیل کی وجہ سے وہ اصول وضوابط بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ یہ بات میں نے اپنی تحریروں میں ،اپنے سرکلز اور جلسوں میں کئی دفعہ کہاہے اورآج بھی کہتاہوں کہ( دوہزارکے بعد) جب قومی جدوجہد نیشنلزم کی بنیادپردوبارہ شروع ہوتاہے تو اُس وقت ہمیں ادارے تفویص نہیں کئے گئے اگر تنظیم بنانے کی سعی کی جاتی تو مواقع دستیاب تھے ۔ آج اگربلوچ کے پاس کچھ نہ ہوتاتو کم از کم پچاس،سوپروفیشنل انٹلکچول ہوتے،ادارے کا مطلب اصول وضوابط ہیں وہ انقلابی اصول جنہیں آپ بناتے ہیں جب تک وہ انقلابی اصول و ضوابط نہیں بنتے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ’ آج ہم کچھ کررہے ہیں‘ اگرکل کلاں میں اورآپ تھک گئے ،گھر بیٹھ گئے ، مارے گئے تو وہ سلسلہ رک جائے گا۔ لیکن ان پندرہ سالوں میں ادارے کی تشکیل و تعمیر کے لئے کوشش ہوا ہے ،ادارے بنائے جاچکے ہیں اور یہ سوچ فروغ ہوچکاہے کہ ’’ہمیں اپنی نجات اپنے اداروں میں تلاشنے کی ضرورت ہے ‘‘فیصلے اداروں کی صلاح سے ہوں ۔ہمیں بلوچ کو ادارے دینے ہوں گے ۔بلوچ کو ادارہ دینا،بلوچ کی یوتھ ،بلوچ کے نوجوان ،بلوچ کے بزرگ سب کی (مانگ ہے)
دنیامیں فلاحی ریاست کا تصور موجود ہے مگر وجود نظر نہیں آتالیکن بلوچ اپنی مڈی ،بلوچ اپنے وسائل ،بلوچ اپنی تزویراتی اہمیت کے حامل جغرافیہ اوربلوچ اپنی محبت آمیز قوم کی بدولت ایک فلاحی ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتاہے لیکن اُس ریاست کے لئے آپ کوآج سے تیاری کی ضرورت ہے ۔آپ کو کل سے تیاری کی ضرورت تھی ،ماضی میں یہ کرنا تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماضی میں جو کام نہیں ہوا ہے وہ آج بھی نہیں ہوگااس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وارزون میں ،جنگی حالات میں یہ ناممکن ہے ،میرے خیال میں ممکن ہے ،انقلابی لوگ جنگی حالات میں بھی اپنے لوگوں کو تعلیم دے سکتے ہیں ،جنگی حالات میں بھی شعوروآگاہی دے سکتے ہیں ۔‘‘
جدوجہد میں سیاسی ترقی اور خواتین کے شمولیت کے بارے میں کہا ’’کل ہمارے سماج میں عورت کی اہمیت صرف گھرتک محدودتھا، آج وہ جدوجہد میں شامل ہے آج وہ جدجہدکو لیڈکررہی ہے ۔۔۔آپ کے شانہ بشانہ ہے ۔۔۔وہ میرے اورآپ کے تنازعات کے حل کے لئے پہاڑوں پر جانے کے لئے تیار ہے (بی ایل اے اوریوبی اے کے درمیان تنازعے کی تناظرمیں )اُس میں ایسا جذبہ فروغ پاچکاہے یہ ازخود رونما ہونے والی شئے نہیں ہیں ،یہ آپ کے عمل اورکردارکا پیداوارہیں ۔ اُس عمل اورکردارنے انہیں اپنے قومی جدوجہدکی جانب متوجہ کیاہے ۔‘‘
چیئرمین صاحب نے چین کی سرمایہ کاری کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہ’’میں سمجھتاہوں کہ بلوچ کی جدوجہد نے چین کی توسیع پسندانہ عزائم ،توسیع پسندانہ مزاج اور سرمایہ کاری کو پینسٹھ ،ستر فیصدناکام بنادیاہے ۔آج ہم چینی سفیر کا بیان پڑھتے ہیں تو وہ ہمیں دفاعی پوزیشن پر نظرآتاہے ،یہ تمام اس مجلس میں تشریف فرما ساتھیوں کی شراکت،قربانی اورمحنت کا ثمر ہے ۔وہ ساتھی جو جسمانی طورپر ہمارے ساتھ موجود نہیں ہیں یہ ان کے لہو ،قربانی اورشہادتوں کی بدولت ہے ،یا وہ ساتھی جو زندانوں میں مقید مگر ڈٹے ہوئے ہیں ان کاحوصلہ اور عزم نے آپ کی جدوجہد کو کامیاب کیا ہے ۔وہ ساتھی جو پہاڑبیابانوں میں پڑے سردی و گرمیوں میں ہرجگہ، ہرقدم پر دشمن کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں ،یہ ان کی قربانیاں ہیں ‘‘۔