بلوچستان میں تمام عالمی انسانی حقوق کی پامالیاں کی جا رہی ہیں، بی این ایم

200

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی دہشت گردی میں اضافہ، اجتماعی سزا عروج پر اور خواتین و بچوں کے اغوا کا سلسلہ جاری ہے۔

مشکئے، گریشہ، بلیدہ، پروم، کولواہ ، شاپک، بالگتر سمیت کئی علاقوں میں فوجی آپریشن میں خواتین اور بچوں سمیت کئی لوگوں کو حراست کے نام پر لاپتہ اور کئی گھروں کو جلایا گیا ہے۔ یہاں تمام عالمی انسانی حقوق کی پامالیاں کی جارہی ہیں اور یہ سلسلہ نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں داخل ہوچکی ہے۔

اس بحران میں میڈیا کا کردار نمایاں ہے کیونکہ میڈیا اور صحافی حضرات فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر کے بیانیہ پر بھروسہ کرکے بلوچستان کی اصل صورتحال کو دنیا کی نظروں سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو نے صحافیوں کو نوازنے کیلئے لیپ ٹاپ تقسیم کئے۔ دنیا میں صحافیوں کو اگر اس طرح کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں وہاں وہ حقیقت اور آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

بلوچستان میں صحافی لالچ،ریاستی مظالم اور خوف کی وجہ سے اپنے پیشے سے بد دیانتی کر رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر جاری فوجی آپریشنوں میں لوگوں کا اغوا اور قتل کسی بھی صحافی کا موضوع اور دلچسپی نہیں۔

ترجمان نے کہا کہ مشکئے تنک میں میر ساہو کے گھر پر دھاوا بول کر پاکستانی فوج نے جھونپڑیوں پر مشتمل گھروں کو جلا ڈالا ور خواتین و بچوں کو اُٹھا کر لاپتہ کیا۔ ان کے گھر پر 2012 میں شیلنگ کرکے دو سالہ بچی بختی سمیت خواتین کو شہید کیا گیا تھا۔ میڈیا اور دنیا کی مجرمانہ خاموشی سے استثنیٰ پاکر پاکستان نے ایک دفعہ پھر اسی گھر کو دہشت کا نشانہ بنایا اور خواتین اور بچوں کو اغوا کیا۔ مغویوں میں لعل بی بی بنت عطا محمد، زر بی بی بنت مراد خان، خیربانو بنت بہرام اورسارہ بنت علی مراد شامل ہیں، چار دن بعد بھی ان کی کوئی خبر نہیں۔

ترجمان نے کہا کہ بلیدہ کے علاقے گیشکور میں دوران آپریشن حیات ولد قمبر کو شہید اور رحیم بخش ولد خان محمد اور رحیم بخش ولد مراد بخش، جاوید ولد آسمی، اخت ولد غلام، اقرام ولد عبداللہ، عبدالرؤف ولد نبی بخش، اور پنجگور کے رہائشی ریاض ولد امیت، نزیر ولد کریم جان کو اُٹھا کر لاپتہ کیا گیا۔چار روز قبل بلیدہ کے رہائشی الطاف ولد دوست محمد کو تربت سے اغوا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح پروم سے بارہ سالہ بلال ولد قادر بخش کو اغوا کرکے فوجی کیمپ منتقل کیا گیا، اس کی اغوا نما گرفتاری کے خلاف خاتون رشتہ داروں نے کیمپ کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے مگر قابض فوج بارہ سالہ بلال کو کیمپ سے بازیاب نہیں کر رہاہے۔

پنجگور میں فورسز نے ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ مل کر مقصود ولد منیر کے گھر کو توڑ کر پیسے، زیورات، گھڑی اور کمبلوں سمیت تمام اشیا کو لوٹ کر لے گئے۔ گھر والے علاج کی غرض سے کراچی گئے ہوئے تھے اور گھر میں کوئی موجود نہیں تھا۔ پاکستانی فوج نے بلوچوں کے قتل عام میں تیزی کیلئے ڈیتھ اسکواڈ قائم کر رکھے ہیں اور بدلے میں انہیں ہر قسم کی چھوٹ حاصل ہے۔

ضلع خضدار کے علاقوں گریشہ اور گروک کی کئی بستیوں کو جلا کر خاکستر کرکے کئی نہتے شہریوں کو پاکستانی فوج نے اغوا کرکے لاپتہ کیا ہے۔ اسکول، ہسپتال اور ایک گھر پر قبضہ کرکے فوجی چوکی بنائے گئے ہیں۔ اسی سالہ بزرگ ولی داد کو اغوا اور رشتہ داروں کے گھر نذر آتش کر دیئے گئے۔

دشت نگور سے دوران آپریشن یعقوب ولد سبزل اور واہگ ولد محمد، ہوچات سے وحیدمراد، صابر ولد کریم بخش کو اغوا و لا پتہ کیا گیا ہے۔

یہ تمام مناظر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں کیونکہ پاکستان نے بلوچستان میں انسانی حقوق اور میڈیا اداروں کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور دوسری طرف یہی ادارے فوجی بیانیہ کو تسلیم کرکے بلوچ نسل کشی میں ساتھ دے رہے ہیں۔