اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورت حال پر ایک خصوصی اجلاس جمعہ انیس جنوری کو طلب کیا گیا۔ اس اجلاس میں افغانستان اور خاص طور پر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ کابل حکومت کے تعلقات اور رابطے زیر بحث آئے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغانستان کی داخلی صورت حال اور کابل حکومت کے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات پر توجہ مرکوز کرنے کے علاوہ امن اور سکیورٹی کی صورت حال پر بھی بحث کی گئی۔ اس اجلاس میں امریکی اور پاکستانی مندوبین نے بحث کے دوران افغان صورت حال پر اپنے اپنے دلائل کا تبادلہ کیا، جس دوران لفظوں کی جنگ بھی دیکھنے میں آئی۔
امریکی نائب وزیر خارجہ جان سلیوان نے کہا کہ اب امریکا پاکستان کے ساتھ مزید نہیں چل سکتا کیونکہ اُس نے دہشت گرد تنظیموں کے ارکان کو پناہ دے رکھی ہے۔ سلیوان نے مزید کہا کہ پاکستان کو اس حمایت کو بند کر کے افغان تنازعے کے حل کی کوششوں میں بھرپور طریقے سے شریک ہونا چاہیے۔
اس کے جوا ب میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے واضح کیا کہ افغانستان اور اُس کے اتحادیوں، خاص طور پر امریکا کو پہلے افغانستان کے اندرونی چیلنجز پر توجہ دینا چاہیے نہ کہ وہ اس تنازعے کا الزام کسی اور کے سر دھریں۔ ملیحہ لودھی نے یہ بھی کہا کہ ’وہ جو تصور کرتے ہیں کہ ایسی پناہ گاہیں افغانستان سے باہر قائم ہیں، ان کا حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے‘۔
سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں امریکی اہلکار جان سلیوان نے زور دے کر کہا کہ اب اس صورت حال کا تبدیل ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امن کے قیام کی کوششوں میں افغان شہریوں کی اپنی سوچ اور کوششوں ہی کا حتمی ہونا ضروری ہے اور اس امن عمل میں افغان سکیورٹی فورسز کے لیے بین الاقوامی برادری کی حمایت بھی ضروری ہے۔
امریکی نائب وزیر خارجہ نے اجلاس میں مزید واضح کیا کہ افغان سکیورٹی فورسز کا طالبان کے لیے واضح پیغام یہ ہے کہ اس تنازعے کا حل صرف اور صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے اور وہ کسی صورت بھی مسلح کارروائیوں سے جنگ نہیں جیت سکتے۔ سلیوان نے بغیر نام لیے اُن ملکوں پر تنقید کی جو طالبان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سلیوان کے اس موقف کے جواب میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ سترہ برس سے جاری تنازعے نے واضح کر دیا ہے کہ جنگی حالات کے ساتھ نہ تو افغان حکومت کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی طالبان فتح مند ہو سکتے ہیں۔ لودھی کے مطابق سفارتی مکالمت کے ساتھ ساتھ جنگی کارروائیوں کی حکمت عملی صرف اور صرف تشدد میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستانی مندوب کے مطابق صرف لفاظی سے معاملات حل نہیں ہوتے اور اس کے لیے مؤثر اور عملی مکالمت کی بھی ضرورت ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی اہلکار جان سلیوان، پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی اور افغان نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے اپنی اپنی تقاریر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی امداد معطل کرنے کا کوئی حوالہ نہ دیا۔