ایک قابض جب کسی ملک پر قابض ہوتا ہے تب وہ اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے کوششیں شروع کردیتا ہے کیونکہ قبضہ گیریت ایک
گمراہ کن طاقت کا نتیجہ ہوتا ہے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے قبضہ گیر کو طاقتور رہنا پڑتا ہے۔ قبضہ گیر خود کو طاقتور رکھنے کا نہایت آسان ہنر جانتا ہے وہ دیسی کو طاقت سے دور رکھتا ہے اور اپنے نمائندے تخلیق کرتا ہے جو دیسی کو ایک تابعدار نوکر بنا کر رکھتے ہیں۔ نمائندے مختلف سطحوں پر مختلف فریضے سرانجام دیتے ہیں لیکن ان کا مقصد دیسی کو شعور سے دور رکھنا ہوتا ہے۔ نوآبادکار گو کہ نفسیاتی جال بچھاتا ہے لیکن وہ تن تنہا ایسا نہیں کرسکتا اس کے لیے اسے نمائندے درکار ہونگے جو اسے طاقتور رکھیں۔
مذہبی سطح پر نمائندگی:
مذہبی سطح پر نوآبادکار کو خاصی نمائندگی ملتی ہے اور بلوچ تحریک کے تناظر میں ہم مذہبی نمائندوں کا کردار دیکھیں وہ ہمیں واضح نظر آتا ہے۔ آج بلوچ گل زمین پر انتہا پسندی کے بیجھ بوئے جارہے ہیں اور یہ سب صرف اور صرف نیشنلزم کی تحریک کو پس منظر میں لے جانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ فرقہ واریت کے لیے ریکروتمنٹ کے حوالے سے بلوچ نوجوانوں کا انتخاب کیا جارہا ہے اور باقاعدہ طور پر انہیں استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کل کو اس کا رخ بلوچ تحریک کی جانب موڑ دیا جائے کیونکہ کل جب یہ ریاست کے ہاتھوں استعمال ہوکر بلیک میل ہوجائینگے تب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ یہ بلوچ تحریک کے خلاف استعمال ہوں۔ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ان فرقہ وارانہ کاروائیوں کو جواز بنا کر بلوچ آزادی پسندوں کیخلاف کاروائی عمل میں لائی جائے اور اسے رنگ دوسرا دیا جائے تاکہ۔گمراہ کن پروپیگنڈہ کو جواز مل سکے۔
دوسری نمائندگی عوامی سوچ کو نیشنلزم کے فکر سے دور رکھنے کے لیے تبلیغی جماعت کے ہاتھ میں ہے، ہر سال اجتماع پہ اجتماع اور سب سے زیادہ سرگرمی بلوچ گلزمین پر حالانکہ اخلاقی معیار کے حوالے سے بلوچستان دیگر صوبوں سے بہتر ہے اور آبادی کے لحاظ سے بھی کم لیکن اس طرف اتنے اجتماع کیونکر؟
اور اب تو باقاعدہ خواتین کو بھی مدعو کرنا۔۔۔۔ یہ سب ایک سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے تاکہ بلوچ قوم میں بیگانگی ذات بڑھنے لگے اور وہ ایک خول میں بند ہوکر غلامی کے خلاف جدوجہد سے دور رہیں۔ جب طارق جمیل صاحب یہ کہتے ہیں کہ اس دنیا کی فکر چھوڑ دو تو دراصل وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس نیشنلزم کی فکر چھوڑ دو جس میں آپ کی نجات ہے۔ ان کے تمام بیانات انتہائی جذباتی اور گمراہ کن حد تک غلط ہوتے ہیں جن کو وہ مذہبی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ یہ بلوچ عوام کو مسلمان بنانے کے چکر میں نہیں بلکہ پاکستانی بنانے کے چکروں میں ہیں۔ بلوچ قوم کو ان کے اصل مقاصد سمجھنے ہونگے وگرنہ یہ ذہنوں کو مزید مفلوج کرتے رہینگے۔
تبلیغی جماعت کے ذریعے انفارمیشن بھی حاصل کیا جاتا ہے اور ان کے آنے جانے پر سوال اس لیے نہیں اٹھایا جاسکتا کیونکہ یہ مذہب کی آڑ میں یہ سب بہ آسانی کرسکتے ہیں۔ تبلیغی جماعت نے سرد جنگ کے دوران مصر کے اخوان المسلمون کیساتھ مل کر مختلف جگہوں پر کام کیا اور افغانستان میں جہاد کے لیے بھرتیاں کرنے میں کلیدی کردار بھی ادا کیا۔ اب اس کا مکمل رخ بلوچ قومی تحریک کیخلاف بلوچ علاقوں میں موڑ دیا گیا ہے۔
لشکر جھنگوی و لشکر طیبہ سمیت داعش جیسے تنظیموں کو بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے مد مقابل لاکھڑا کیا جارہا ہے کیونکہ نوآبادکار کو جہاں سے موقع ملے وہ اپنا وار کرتا ہے اور اس کے لیے دیسی باشندے کو چوکس رہنا چاہیے اور نوآبادکار کے ہر قدم پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔
تعلیمی سطح پر نمائندگی:
تعلیم مظلوم کا ہتھیار ہے لیکن یہ ہتھیار صرف مظلوم کا ہی نہیں بلکہ ظالم کا بھی ہوسکتا ہے اور اسے استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ کس حد تک استعمال کرتا ہے۔ جیسے لارڈ میکالے نے اپنے تعلیمی نظام کے حوالے سے کام کیا وہ خالصتا ہندوستانیوں کو انگلستان کا نمائندہ بننے کی مشق تھی اور لفظ “بابو” Baboon سے اخذ شدہ ہے جس کے معنی نقل اتارنے والے بندر کی ہے یعنی جب ہندوستانی اپنا اسٹائل انگریزوں جیسا کرتے تب انہیں ببون کہا جاتا اور کرتے کرتے یہ لفظ بابو بن گیا اور اس طوق غلامی کو ایک اعزاز سمجھا جانے لگا۔ یہ ایک گہری چال ہے یعنی ایک سانچہ جس میں دیسی کو ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے یا مختصرا فریرے کے الفاظ میں بنکنگ طرز تعلیم۔ بلوچ کو یہ تعلیم کہاں تک پہنچا چکی ہے؟ اس کے لیے اگر ہم بی ایس او کی جدوجہد کو ایک طرف رکھ کر محض پاکستانی فریم ورک کو دیکھیں تب اندازہ ہوگا کہ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ نیشن آف کلرکس کے تھیوری پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بلوچ نوجوانوں میں ایک نہایت ہی محدود سوچ کو پروان چڑھایا جارہا ہے، انہیں سیاست سے دور رہتے ہوئے صرف ذاتی مفاد کا درس دیا جاتا ہے۔ مفادپرستی،لالچ، دروغ گوئی، علم و عمل سے محرومی اور دوغلہ پن سے ذہنوں کو بھرا جارہا ہے اور وہ معلومات پہنچائی جارہی ہیں جن کی پریکٹیکل دنیا میں کوئی حقیقت نہیں۔ ایک تابعدار غلام تو بن رہا ہے لیکن ایک آزاد انسان کے بننے کی گنجائش میں کمی لائی جارہی ہے جو سوال اٹھانے کے قابل ہو۔ ایسے میں تعلیمی نظام بلوچ کے خلاف ریاست کا ہتھیار بن چکا ہے لیکن خوش قسمتی سے ڈاکٹر اللہ نذر کے بی ایس او کو صحیح ڈگر پر چلانے کے بعد سے لے کر 2008 تک بی ایس او نے بلوچ نوجوانوں کی اچھی خاصی تربیت کی لیکن ریاست نے بی ایس او کے لیے تمام تر راستے بند کردیے اور ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ شعوری ذہن سازی کے عمل کو روکا جاسکے۔ اب جب بی ایس او کھل کر کام نہیں کرسکتا تو ایسے میں متبادل ذرائع استعمال کرنے ہونگے۔ بی ایس او نے کتاب کلچر کو پروموٹ کیا اور یہ ایک مثبت رجحان تھا، لٹریچر تربیت کے لیے لازمی ہے اور اسی طرح نوآبادیاتی بیانیے کے اثر کو توڑا جاسکتا ہے۔