بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے کہا کہ بلوچستا ن کے نئے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ قدوس بزنجو کا بلوچ آزادی پسندوں کے لئے پہاڑوں سے اترکر ہتھیار پھینکنے کی دھمکی کوئی نئی اورانوکھی شئے نہیں ۔یہ پاکستان کی جانب سے بلوچ نسل کشی اور غلامی کو دائم رکھنے کے لئے ستر سالوں سے جاری بیانیہ کا حصہ ہے ۔ نت نئے حکمت عملیوں کے باوجود قومی تحریک کو کچلنے میں ناکامی نے پاکستان کو نفسیاتی امراض کاشکا ر ایسی ریاست میں تبدیل کردیاہے جس کا حل وہ مزید جبر و تشدد اور بربریت سے ڈھونڈنے کی کوشش میں ہے ۔اس کے ساتھ وہ اپنی ناکامی کاحل کٹھ پتلیوں کو بدل بدل کر تلاش میں مصروف ہے ۔کل دلالی کے اس منصب پر ایک اوررسوائے زمانہ ثناء زہری کو بھی اس لئے بٹھایاگیا تھا کہ وہ قومی تحریک کو کچلنے میں معاونت کریں گے ۔اس سے پہلے نام نہاد قوم پرست اور مڈل کلاس ڈاکٹر مالک سے یہی کام لیاگیاتھا۔ اس اندازِ بیان اورمجرمانہ دھمکیوں سے تاریخ تو بھرا پڑا ہے مگر ماضی قریب سے شروع کریں تو اس کا آغاز مشرف نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’’بلوچوں کو ایسی جگہ سے ہٹ کریں گے کہ انہیں پتہ تک نہیں چلے گا‘‘۔تاریخ مشاہدہ کررہی ہے کہ آج بھی بلوچ اپنی سرزمین پر موجود جدوجہدکررہاہے مگر مشرف نامی قاتل بیماری کا بہانہ کرکے اپنے ہی ملک اور فوج سے باغی ہے۔قدوس بزنجو کی طرح مرحوم جام یوسف، اسلم رئیسانی ،ڈاکٹر مالک اورثناء زہری یہی جملہ دہراتے رہے اور ٹشوپیپرکی طرح استعمال ہوتے رہے کیونکہ یہ ان کی نوکری یا صحیح معنوں میں دلالی کے منصب کا تقاضا ہے مگر قومی تحریک کی جڑیں قومی سرزمین اور بلوچ قوم کے دلوں میں اس طرح پیوست ہیں کہ انہیں اس طرح کے دلالوں اور قومی مجرموں کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتاہے ۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات اور جمہوریت ایک مزاق سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے 2013کے نام نہاد پاکستانی انتخابات کا بلوچ نے مکمل طورپر بائیکاٹ کیا تھا جو پاکستان سے آزادی کے لئے بلوچ قوم کاایک واضح اور شفاف پیغام تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج جس شخص کو کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کے منصب پر بٹھایاگیاہے، اس کے حلقہ انتخابات کو پوری بلوچستان کی طرح مکمل فوجی حصار میں لے کر زبردستی پولنگ بوتھوں میں لے جانے کی کوششوں کے باوجود بلوچ قوم نے بندوق کے سامنے سینہ تھان کر ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا اورموصوف کے لئے ٹھپہ ماری کے ذریعے چند ووٹ ڈالے گئے ۔اس بات کاانہوں نے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے اعتراف بھی کیا۔پاکستانی الیکشن کمیشن اور عالمی مبصرین نے پہلے ہی دن بلوچستان میں کم ٹرن آؤٹ کی وجہ سے انتخابات پر تشویش کا اظہار کیا تھالیکن دوبارہ انتخابات نہیں کرائے گئے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ دوسری دفعہ بھی یہی نتیجہ نکلے گا۔ قدوس بزنجو اپنے حلقے کی 57000 سے زائد درج ووٹروں میں سے 544 ووٹ لیکر کامیاب ہوکر نہ قوم کا نمائندہ ہوسکتا ہے اور نہ وزیر اعلیٰ ، مگر اُسے خود اُسکی اور آباد و اجداد کی کرامات کی بدولت یہ منصب سونپی گئی ہے۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ آج یہی شخص بلوچ قوم سے جڑے عظیم جہدکاروں کو پہاڑوں سے اتر کر ہتھیار پھینکنے کی دھمکی دے رہا ہے۔اُسے نہیں معلوم کہ بلوچ جہدکاربلوچ نیشنلزم کے نظریہ کے تحت ہتھیار اُٹھاچکے ہیں اوران کے ہتھیار اس نظریے کے پابند ہیں۔ بلوچ قوم گزشتہ ستر سالوں سے محاذ پر انتہائی جرات اور بہادری کے ساتھ دشمن کے سامنے سینہ سپر ہے ۔یہ پہلی دھمکی نہیں بلکہ ایسی دھمکیاں تسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہیں۔ یہ ان کے لئے اپنے آقا کا نمک حلالی اور تنخواہ بڑھانے کا ذریعہ ہے ۔یہی کام قدوس کے والد مجید بزنجوگزشتہ تیس سالوں سے کررہے ہیں۔قدوس اور مجید نے گزشتہ کئی سالوں سے علاقائی دلالوں اور داعش کے ساتھ ڈیتھ سکواڈ قائم کئے ہیں، جو بلوچ قوم کے خلاف جنگی جرائم کا مرتکب ہورہے ہیں۔قدوس بزنجو کے بھائی جمیل بزنجو جھاؤ اور گرد و نواح میں ریاستی سربراہی میں داعش کیلئے بھرتی اور ٹریننگ کی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ کئی داعش کے اہلکاروں کو بی ایل ایف کے سرمچاروں نے گرفتار کرکے پوچھ گچھ کی ہے تو تمام ثبوت و شواہد یہی کہتے ہیں کہ اس علاقے میں داعش کی نشو و نما میں یہی خاندان ملوث ہے۔ پاکستان کی بنیاد چونکہ مذہبی انتہا پسندی ہے، انہی نظریات کی بنیاد پر ایک Unqualified اور انگوٹھا چاپ شخص مجید بزنجو کو کئی سالوں تک وزیر بنایا جاتا ہے تو آخر میں اس کے Unqualified بیٹے کو سپیکر اور وزیر اعلیٰ مقرر کی جاتی ہے۔ یہ لوگ چار دہائیوں سے فوج کے چہیتے لوگ ہیں۔
آخر میں گہرام بلوچ نے کہا کہ ہم واضح کرتے ہیں کہ بلوچ قو م اپنی قومی آزادی کے لئے دشمن اوردشمن کے دلالوں کی تمام غیر انسانی بربریت کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہے اور اپنی قومی آزادی کے منزل تک ان کا مقابلہ جاری رکھے گا۔