طالبان اور حقانی نیٹ ورک واپس افغانستان چلے جائیں: پاکستان

436

امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو واپس بھیجنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان جا کر مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہوں۔

اعزاز چوہدری نےکہا کہ پاکستان پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزامات کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانے موجود نہیں ہیں اور اگر امریکہ کو شک ہے اور ان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ ہمیں بتائیں کیونکہ ہم بھی انھیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔

’ہماری پوزیشن تو یہ ہے کہ ہم ان کو اپنے ملک سے بھیجنا چاہتے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ طالبان اور حقانی ہمارے پاس رہیں، ہم تو ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ جائیں افغانستان میں جا کر رہیں اور اب وہ آپ کا ملک ہے اور وہاں کی مرکزی سیاسی دھارے میں جا کر شامل ہوں اور یہاں پر آپ کا رہنا قبول نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ’ ہم بالکل نہیں چاہتے کہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان ہمارے ملک میں رہیں اور ہم ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں، ہماری اطلاعات کے مطابق ان کے پاس وہاں 43 فیصد علاقہ موجود ہے تو ان کو پاکستان میں رہنے کی کیوں ضرورت ہے۔ البتہ یہ ہے کہ مہاجرین میں ان کی رشتہ داریاں ہیں اور اسی وجہ سے ہم چاہتے ہیں کہ یہ بھی واپس افغانستان جائیں۔‘

اعزاز چوہدری نے افغان مہاجرین کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ’ اب (مہاجرین) سکیورٹی کے لیے خطرہ اختیار کرتے جا رہے ہیں جس میں نوجوانوں کو وہاں سے بھرتی کیا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی واپس جائیں اور اس کے ساتھ سرحد کو محفوظ بنایا جائے تاکہ برے لوگ نہ ِادھر سے اُدھر جائیں اور نہ ہی اُدھر سے ادھر آئیں۔‘

اعزاز چوہدری نے افغانستان کی سرحد پر مکمل نگرانی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ آتے ہیں، تو ہماری کوشش اور خواہش یہ ہی ہے کہ دونوں ملک مل کر کام کریں، اسی میں دونوں کا فائدہ ہے کیونکہ امریکہ کا ہدف افغانستان میں استحکام لانا ہے اور ہمارا بھی یہ ہی ہدف ہے۔

امریکہ کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے اور فوجی تعاون ختم ہونے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان رابطے ہیں جس میں ورکنگ لیول پر انٹیلیجنس شیئرنگ بھی شامل ہے۔‘

’ہمیں بات چیت کے راستے رکھنے ہیں، اور ہم چاہتے ہیں کہ انٹیلیجنس کا تعاون بھی رہے جو ابھی ورکنگ لیول پر ہے بھی، اور آفیشلز کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔‘

خیال رہے کہ چند دن پہلے ہی پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا تھا کہ امریکہ کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے اور فوجی تعاون معطل کر دیا گیا ہے

خرم دستگیر کا بیان حکومتِ پاکستان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کیا گیا جبکہ امریکہ کے ساتھ فوجی تعاون اور خفیہ معلومات کے تبادلے کو پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے ہفتے وار بریفنگ میں انتہائی اہم قرار دیا۔

امریکہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف بیان کے حوالے سے کہا کہ ایسے بیانات پر حیرت ہوتی ہے کیونکہ گذشتہ چھ ماہ سے جو بات چیت ان کی ہمارے ساتھ چل رہی تھی جس میں امریکہ کے دو وزیر بھی پاکستان آئے۔

’اس میں ہم مشترکہ گراؤنڈ کی بات کر رہے تھے کہ کہاں پر ہم مل کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اب امید تو یہ ہی کر رہے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان میں جو ہداف طے کیے ہیں ان کے لیے مل کر کام کیا جائے۔‘

امریکہ اور پاکستان کے تعلقات رواں برس کا پہلا سورج چڑھنے سے پہلے ہی تلخی کا شکار ہو گئے تھے۔

اس سارے معاملے کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سال نو کے آغاز پر ہی کی جانے والی اس ٹویٹ سے ہوا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ گذشتہ ڈیڑھ دہائی میں اربوں ڈالر کی امداد لینے کے باوجود پاکستان نے امریکہ کو سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا ہے۔

ان کے اس بیان کے بعد امریکہ نے پاکستان کی عسکری امداد اس وقت تک معطل کرنے کا اعلان کیا تھا جب کہ وہ اپنی سرزمین پر حقانی نیٹ ورک سمیت ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کرتا جن کے خلاف کارروائی کا امریکہ خواہشمند ہے۔

اس کے بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کو دیے انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ اتحاد ختم ہو گیا ہے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا امریکہ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی اتحاد نہیں ہے۔ اتحادی اس طرح سے پیش نہیں آتے۔’