بلوچ سرزمین ایک جنگ زدہ علاقہ بن چکا ہے۔ جنگ کی آفت نے سب کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، یہاں خشک و تر دونوں جل رہے ہیں۔
جنگ کی وباء چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے روز گھر جلائے اور اجھاڑے جاتے ہیں کھڑی فصلیں تباہ کیے جاتے ہیں انسان بے دردی سے قتل کیے جاتے ہیں جنگی جہازوں اور توپ خانوں سے برساتے بمبوں کی آگ بچوں بوڑھوں عورتوں کی تمیز کیے بغیر سب کو جلا کر ہر ایک سے زندگی چین لیتا ہے یہاں کے گدھ انسانی جسم کے گوشت کھا کر پیٹ بھرتے ہیں جگہ جگہ مسخ لاشیں بے گور و کفن پڑے ملتے ہیں بچے کچے لوگ بھی وحشیانہ انداز سے روندے جا رہے ہیں خوش قسمت وہ ہیں جو اپنی جانوں کو بچانے کے لئے یہاں سے کوچ کر گئے ہیں کرہ ارض کے اس ٹکڑے پر بسنے والے لوگ تباہ حال، پسماندہ، جدید ترقی سے نا آشنا ہیں انہیں بس اپنی زمین سے بے پناہ محبت کی پڑی ہے اسی کے تو پاداش میں سامراج اور لٹیروں کی غیض وغضب کا شکار ہیں زمین سے محبت یہاں کی باسیوں کو مہنگی پڑی ہے اس لئے زبردستی لوگ یہاں سے بے دخل کیے گئے ہیں قتل کر دیے گئے ہیں ان کے نوجوان بیٹوں کو دشمن اپنے ساتھ جبری طور پر اٹھا کر لے گیا ہے یہاں جا بجا بیوہ اور یتیموں کی بستیاں آباد ہو چکے ہیں جہاں درد زدگی، تکلیف بھری چیخیں، بے بس آنسو بہانا اب معمول بن چکا ہے سب ایک ہی ازیت میں مبتلا ہیں۔
بے گناہ اور گناہ گار کا فرق کیے بغیر دشمن کے لئے سب گناہ گار ہیں اور جمی مقتل گاہ میں صرف اسی زمین کے باسیوں کو قتل کیا جاتا ہے کیونکہ دشمن کو یہاں کی باسیوں سے نہیں بلکہ ان کی زمین سے لینا ہے ان کی زمین پر قبضہ کرنے کے لئے انہیں ختم کرنا دشمن کی اولین ترجیح ہے
حمیدہ بلوچ بھی ان وقتی خوش قسمت خاندانوں کی متاثرین میں سے ایک تھی جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پوری خاندان سمیت دشمن کے قہر سے بچنے کے لئے علاقہ چھوڑ کر دیار غیر میں رہنے لگی تھی تاکہ وہاں دشمن کے شر سے بچ کر زندگی گزار سکیں۔
حمیدہ بلوچ اپنے اندر زمین کا درد، سہے گئے مظالم، بچپن کے ساتھی سہلیوں کی بچھڑنے اور اپنی پوری بستی کو آنکھوں کے سامنے اجڑنے کی تکالیف کو بھلانے کی کوشش میں ہار کر پوری طرح چور چور ہو جاتی ہے جب یہ شومئی خبر کانوں پر پڑتی ہے کہ دشمن دیار غیر میں بھی ان کے تعاقب میں پڑا ہے اور ان کے بد حال خاندان کے آخری سہارا و امید صغیر بلوچ کو ایک تعلیمی ادارے سے جبری طور پر اس کے دوستوں کے سامنے اٹھا کر لاپتہ کر دیا گیا ہے۔
اپنی بھائی کے بازیابی کے حق میں حمیدہ بلوچ پرامن اور جمہوری طور پر لڑنے کا فیصلہ کرتی ہے ہر فورم پر، در در حمیدہ بلوچ کی بے بس، خوف زدہ اور کپکپی چیخیں نہ صرف اپنی بھائی سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے عمل میں ایک حوصلہ افزاء قدم ہے بلکہ زندان میں بند لاپتہ افراد کے لئے ایک زندہ و سلامت امید بھی ہے حمیدہ بلوچ کی کپکپاتی چیخیں جہاں دشمن کے لئے باعث تکلیف ہیں وہاں ہر لاپتہ افراد کے خاندان، کی بے حسی پر ایک دردمندانہ سوال کرتی ہے جو خوف کی وجہ سے اپنے پیاروں کی جدائی کی غم کو اپنے اندر دبائے خاموش ہیں۔
جس دشمن کے ہاتھوں حمیدہ بلوچ اپنی سرزمین سے بے دخل ہوئی اس کی خوشحال زندگی درد زدہ ہو گئی اب پوری قوم کی درد اپنی ناتواں کندھوں پر لیے انصاف کی جنگ لڑرہی ہے جو کہ ایک عظیم جہد ہے۔
ظلم و ستم، بے پناہ درد و کرب کی علامت حمیدہ بلوچ اب درد و تکالیف خاموشی سے سہنے والی ایک روایتی و دیہاتی لڑکی نہیں رہی ہیں بلکہ اب وہ مظلوم عورتوں اور اپنی لوگوں کی بے بسی، ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف بہادری و ایثار سے لڑنے والی ایک کردار بن کر سامنے آئی ہیں۔