کئ سالوں کے بعد آج ایک دوست سے ملاقات ہوئی، میں نے اس سے پوچھا کیا حال احوال ہے، دوست سب خیریت سے ہیں؟
اس نے جواب دیتے ہوئے کہا؛ دوست سب کچھ بدل گیا ہے، پہلے جیسا کچھ بھی نہ رہا، پھلین شہید امیر جان کے جانے کے بعد ایسا لگا تھا کہ اب سب کچھ ختم ہوگیا ہے لیکن نہیں پھلین کی چندرشیکر جیسی شہادت اور بھگت سنگ جیسے سوچ اپنے ساتھ ایسا انقلاب لے آیا کہ علاقے میں ہر نوجوان کے دل میں آزادی کا جذبہ، آزاد بلوچستان کا نعرہ اور وطن کےلئے کچھ کر گزرنے کی تمنا ہے۔
دوست نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ؛ جب پھلین کی شہادت ہوئی تو کچھ دن بعد میں پھلین امیر جان کے ماں سے ملنے ان کے گھر گیا، میں نے وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ان گھر پر آنے جانے والوں کا ایک بڑا ہجوم تھا، پھلین کی مان سینے میں آگ، آنکھوں میں سمندروں کو چھپائے ہوئے زبان پر مٹھاس لئے ایک بیٹے کی شہادت اور دو بیٹوں کے تاحال لاپتہ ہونے کے باوجود سب کو تسلیاں دے رہی تھی کہ میرا بیٹا شہید ہوا ہے لیکن اس کی سوچ ہمیشہ زندہ رہے گی اور دوشمن کو تڑپاتی رہے گی، آپ سب کو پتہ ہے امیر جان نے جب سے ہوش سمبھالا تھا اس دن سے اس نے مجھ سے کہا تھا “ماں جنم تو آپ نے دیا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن میں اپنے سرزمین آزاد بلوچستان کا بیٹا ہوں، ماں میں یہ آپ کو ایک دن ثابت کرکے دکھاؤں گا۔”
دوست نے مزید کہا کہ: ایک سال بعد پھر میں پھلین (شہید امیر الملک) کی ماں سے ملنے گیا وہاں جاکر میں نے دیکھا ماں کے سینے میں وہی آگ اور آنکھوں میں آنسوؤں کو چھپائے ہوئے زبان پر وہی مٹھاس تھی۔ میں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی تو ماں بولی؛ تم نے ابھی تک شادی نہیں کی ہے اور نہ ہی تمہارے بچے ہیں کہ پھلین جیسے بیٹے کے درد کو محسوس یا سمجھ پاؤ گے۔
ماں مثال دیتے ہوئے بولی کہ “جون، جولائی کے مہینوں میں ایک بندہ روزہ رکھے اور سبی جیسا گرم علاقہ ہو، دن کی 12 یا 1 بجے کے وقت سورج کی تیز گرمی میں بندہ کتنا پیاسا ہوتا ہے، میں اپنے بیٹوں کے لیے اتنی ہی پیاسی ہوں”۔
مذید اماں جان نے کہا؛ اچھا ہوا امیر جان ایک طاقت ور دشمن کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوا۔ جو دشمن بالاچ خان اور اکبر خان کو بھی شہید کرسکتا ہے تو میرا بیٹا اتنی بڑی طاقت نہیں، اگر طاقت تھی تو صرف اس کی پختہ سوچ اور پختہ فکر۔
بس ہر بلوچ کی آج خواہش ہے کہ ماں ہو تو امیر جان کے ماں جیسی اور فرذند وطن ہو تو امیر جیسا ہو، پھر وہ دن دور نہیں جب بلوچستان غلامی کی چنگل سے آزاد ہوگا۔