بلوچ نیشنل موومنٹ کے انفارمیشن سیکریٹری دلمراد بلوچ نے ریاستی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے بلوچوں کی تعداد کے بارے میں کہاہے کہ بلوچ لاپتہ افرادکی تعداد چالیس ہزار ہے۔ مختلف ادارے اور قابض ریاست پاکستان اسے متنازعہ بنانے کے لئے ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت کام کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلیدہ اور زعمران میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن جاری ہے جہاں تین جنگی ہیلی کاپٹروں سمیت سینکڑوں زمینی فوج حصہ لے رہی ہے۔ کئی علاقوں میں آمد و رفت کے تمام راستوں کو سیل کیا گیا۔ اس خونی آپریشن میں ایک دفعہ پھر ہلاکتوں کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس طرح کے خونی آپریشنوں میں پہلے بھی پاکستانی فوج نے بلاتفرق بمباری کرکے معصوم نہتے شہریوں کو شہید کیا ہے۔
دلمراد بلوچ نے کہا کہ اس وقت بلوچستان کے بارے میں سب سے بڑی حقیقت جس کا سب اعتراف بھی کرتے ہیں کہ میڈیا پر مکمل پابندی ہے ۔نام نہادآزادپاکستانی میڈیاصرف پاکستانی بیانیے کی تشہیر ودفاع پر معمورہے۔ اس سے بلوچستان بارے کسی خبر کی امید نہیں کی جاسکتی ہے اورعالمی میڈیا میں سے برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) اردو ایک ایسا ادارہ ہے جو کسی حدتک بلوچستان بارے رپورٹنگ کررہاہے اور بی بی سی کی نمائندوں کی تعداد یک ہے جو کوئٹہ تک محدود ہے اوراسے بھی بلوچستان کے دیگر علاقوں میں داخلے کی اجازت نہیں ہے جس کاموصوف بارہااظہارکرچکے ہیں۔ جونہی بی بی سی کاکوئی نامہ نگار بلوچ لاپتہ افرادکے متعلق کسی پاکستانی اہلکار یا انسانی حقوق کے دعویدار تنظیم کے اہلکارسے بات کرتا ہے یاپاکستان کا نام نہاد لاپتہ افراد کمیشن یادوسرے سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ، سب کے سب لاپتہ افراد کی تعدادکے بارے میں انتہائی جانبداری کامظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کا بنیادی مقصد ہے کہ عالمی اداروں کے سامنے پاکستان کا دفاع کیاجائے اور بلوچ المیے اورلاپتہ افرادجیسے سنگین انسانی مسئلے کے تاثر کو زائل کیاجائے ۔ان کی جانب سے ہمارے اعداد و شمار کو مبالغہ آرائی اور پروپگنڈہ قرار دیا جا تاہے۔
یہ بلوچ قومی و انسانی مسئلے سے جڑا ایسا مسئلہ ہے جس پر خاموش رہنا یا پاکستان کی انسانی حقوق کے اداروں اور میڈیا کے بیانیے پر تکیہ کرنا اقوام متحدہ سمیت عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور مہذب دنیاکے لئے بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی ریاست اورفوج کے ساتھ بلوچ نسل کشی میں معاونت کے مترادف ہے ۔بلوچ تاریخ اور پاکستان کے ساتھ بلوچ کارشتہ سے پوری دنیاآگاہ وواقف ہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ بلوچ اورپاکستان کا رشتہ غلام اورآقاکا ہے اوراس رشتے کو پاکستان روزانہ آپریشن ،گمشدگیوں اورگھروں کو نذرِآتش اوربلڈوزکرکے نبھا رہاہے۔ اس غلامی سے نجات کے لئے بلوچ قوم اپنی آزادی کی تحریک میں تاریخ ساز قربانیاں دے رہاہے۔ بلوچ قوم پاکستان کے تمام ریاستی اداروں سمیت عدالت سے بھی کوئی امید نہیں رکھتا کیونکہ یہ طے ہے کہ ریاست کے ظلم کا شکار ہوکر ہم اسی ریاست کے عدالتوں کا رخ کرکے انصاف نہیں پائیں گے ۔اسی لئے بلوچ قیادت روزاول سے زوردے رہی ہے کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے اس معاملے میں مداخلت کریں اوربلوچ نسل کشی، قتل اوردردناک استحصال کا مداواکریں۔ مگر عالمی ادارے اپنے فرائض یا اپنے آئینی تقاضوں سے اب تک انصاف کرنے میں ناکام ہیں۔اس ناکامی کے باجود بلوچ سیاسی قیادت انہیں اپنی مسلسل آوازپہنچاتارہے گا ۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت پورے بلوچستان میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی ہے۔صرف شہروں میں محدود پیمانے پر یہ سہولت سرکاری امورکی انجام دہی کے لئے مہیا کی جارہی ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر جاری آپریشنوں میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں لیکن دنیااس سے بے خبر ہے کیونکہ عالمی میڈیا کو رسائی نہیں دی جارہی ہے جبکہ پاکستانی میڈیا اس جبر میں بلوچ کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پرہے۔ لاپتہ افراد سمیت پاکستان کے تمام جنگی جرائم پر بلوچ نیشنل موومنٹ ہر مہینے ایک مستند رپورٹ شائع کرتاہے ۔اس رپورٹ میں وہ تمام حقائق اورواقعات یک بہ یک شامل ہوتے ہیں جوبلوچستان میں رونماہورہے ہیں۔ ہماری کوشش کے باوجود کئی کیسز نوٹس نہیں ہوجاتے ہیں کیونکہ بلوچستان ایک جنگ زدہ علاقہ ہے اور جنگ زدہ علاقوں میں مکمل رسائی ممکن نہیں ہے۔
دوسری طرف بلوچ قوم نے انتخابات اور پارلیمنٹ کے بہت تجربے کئے ہیں مگر بدلے میں ظلم و جبر اور بلوچ نسل کشی کاسامنا کرنا پڑا ہے اور اسمبلی ممبران صرف تماش بین ہیں۔ اسمبلی فلورز پر غیر قانونی مردم شماری کی مخالفت اور افغانی آبادکاروں کو بلوچستان کی شہریت دینے کے خلاف اسمبلی ممبران کی باتیں کھلی کتاب کی طرح عیاں ہیں کہ ان کی حیثیت و طاقت کیا ہے۔ان کی قرار دادوں کو اسلام آباد ردی کی ٹوکری میں پھینک کرانہیں چھپ کراتاہے۔ ان اسمبلیوں میں آئی ایس آئی کے چہیتے لوگ منتخب ہوتے ہیں جو ہر عمل اور ہر قدم پر جی ایچ کیو سے ہدایات لیتے ہیں۔ اسی لئے بلوچستان اسمبلی ہی سے بلوچ نسل کشی کے پیاموں پر دستخظ کرائے جاتے ہیں۔ آج نیشنل ایکشن پلان اور ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کے تحت خود سرکاری بیانیہ موجود ہے کہ سرفراز بگٹی نے اگست 2016 میں اعلان کیا کہ 2015 اور 2016 کے دوران 2,825 آپریشنوں میں 13,575افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے دسمبر 2015 کو بلوچستان کے ہوم سیکریٹری اکبر حسین درانی نے اعتراف کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نو ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیاہے۔ 2004 میں اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نے چار ہزار بلوچوں کو حراست میں لینے کا اعتراف کیا۔ یہ تعداد ستائیس ہزار سے زائد ہے، جو تاحال لاپتہ ہیں۔ 2000 سے لیکر اس مجموعہ کو اکھٹا کریں تو یہ تعداد چالیس ہزار سے زائد بنتی ہے۔ اس مجموعے کو دیکھ کر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بلوچستان میں پاکستان نے کس طرح کا انسانی بحران پیدا کیا ہے۔ یقیناًیہ بلوچ نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہی تمام لوگ تاحال پاکستان کے خفیہ زندانوں میں ہیں۔ یہ چیزیں کسی بھی بلوچ کیلئے قابل قبول نہیں ہیں اور بلوچ قوم نے شعوری طور پر فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان سے آزادی کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہاہے۔ آج تک میڈیا،انسانی حقوق ،سول سوسائٹی سمیت کسی بھی ادارے نے ریاست کے سامنے یہ سوال نہیں اٹھایا۔اس سے شہہ پاکر ریاست بلوچ قوم کو مولی گاجر کی طرح کاٹ رہاہے ۔
دلمراد بلوچ نے کہا کہ اگرمقامی انسانی حقوق کے ادارے تاریخ میں اپنی کم سے کم بھرم رکھنا چاہتے ہیں توانہیں بلوچ قومی نسل کشی کے معاملے میں آگے آنا چاہئے مگر ان کی کوششیں لاپتہ بلوچ کے حق میں آوازاٹھانے کے بجائے ریاستی بیانیے سے زیادہ ہم آہنگ ہیں اوروہ اس کوشش میں بھی ہیں کسی طرح لاپتہ افراد کے تعداد کو متنازعہ بنائیں۔ اس کا ثبوت ان کی کارکردگی ہے۔ آج لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے مگر ان میں سے کسی نے نہ جنگ زدہ علاقوں کا دورہ کیا ہے نہ ہی حقائق جاننے کسی ایک متاثرہ خاندان سے ملاقات کی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اُن کے پاس کوئی ایسی منطق نہیں ہے کہ وہ لاپتہ افرادکی تعدادیا مسئلے پر بات کریں کیونکہ یہ کئی مواقع پر اقرارکرچکے ہیں کہ ہم اس ضمن میں کوئی قدم اُٹھانے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بلوچ انسانی المیہ اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ انسانی حقوق اور دوسرے عالمی ادارے دنیا کو آگاہ کریں کہ انھیں بلوچستان میں رسائی نہیں دی جارہی ہے۔ ویسے یہ بات خود اس امر کی تصدیق ہے کہ عالمی اداروں کو رسائی نہ دے کر پاکستان یہاں اپنے جنگی جرائم کو چھپاناچاہتا ہے۔آج میں چند حقائق یہاں رکھنا چاہتاہوں تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال واضح ہوسکے۔
نمبر1۔ بلوچستان ایک مکمل جنگی زون بن چکاہے ،پورے بلوچستان میں فوجی چوکیوں کاجال بچھایاگیاہے۔
نمبر2۔ان چوکیوں پرچیکنگ کے بعد سیاسی کارکنوں ،تعلیم یافتہ لوگوں کو اتارکر ہمیشہ کے لئے غائب کیاجاتاہے ۔
نمبر3۔کسی بھی وقت کہیں بھی فورسز چھاپہ مارتے ہیں اور بلوچ فرزندوں کو حراست بعد لاپتہ کر دیتے ہیں۔
نمبر4۔بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پرفوجی آپریشن جاری ہے ۔جس گاؤں،شہر یا پہاڑی علاقے میں آپریشن ہوتا ہے وہ جگہ تباہی کامنظر پیش کرتا ہے ۔اکثر گھروں میں سے قیمتی اشیاء کو لوٹ کر گھروں کو نذرآتش کیاجاتاہے ۔خواتین پر تشددکیاجاتا ہے ،اکثرمردحضرات کو کیمپ منتقل کیاجاتاہے تشددکے بعد کچھ لوگوں کو رہا کیا جاتاہے باقی لوگوں کو آزادی پسند ہونے ،آزادی پسندوں کے سہولت کار ہونے یا کسی بھی شک کی بنیادپر غائب رکھا جاتا ہے ۔
نمبر5۔بلوچستان میں چند ایک شہروں کے علاوہ آبادی منتشر اورپہاڑی ودیہی علاقوں میں بکھری ہوئی ہے ۔سوائے چندشہروں کے، محدودپیمانے میں انٹرنیٹ کی سہولت موجودہے۔باقی پورے بلوچستان میں انٹرنیٹ پر مکمل بندش ہے ،لہٰذا آپریشنوں کی خبریں بھی کم ہی باہر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ درجہ ذیل وجوہات بھی لاپتہ افراد کے خاندانوں کوپیش آتے ہیں ۔
(i)لاپتہ افراد کے لواحقین پر ریاستی فورسزاورخفیہ ایجنسیوں کا شدید دباؤ ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے زبان کھولی تو ان کے عزیزوں کو ماردیاجائیگا۔یہ دھمکیاں فون پریا براہ راست دی جاتی ہیں۔
(ii)اگر ایف آئی آرکے لئے پولیس تھانے میں رپورٹ کی جائے تو پولیس کیس لینے سے انکار کرتاہے کیونکہ پولیس ریاست کا ایک انتظامی ادارہ ہے ۔ اگر کسی بھی طرح سے ایف آئی آر درج بھی ہواتو کیا فائدہ؟ پاکستانی عدالتوں کا ریکارڈ دنیاکے سامنے ہے۔
( iii)پاکستانی سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری ایک طاقتور جسٹس مانے جاتے تھے مگر لاپتہ افراد کے بارے میں وہ بھی بے بس دکھائے دیئے۔ ان سے ایک بھی بلوچ کو انصاف نہیں ملا۔ 11اپریل 2011 کو صحافی محمد خان مری کو اس کے بھائی محمد نبی مری اور ایک دوست مہران کیا زئی کو فرنٹیر کور (ایف سی) نے کوئٹہ سے اُٹھا کر لاپتہ کیا۔ ان کی بازیابی کیلئے سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے ایک پٹیشن دائر کی گئی جس کی سربراہی چیف جسٹس افتخار چوہدری خود کر رہے تھے۔ ڈی آئی جی ہادی شکیل اور ایک ٹریفک سارجنٹ نے سی سی فوٹیج لیکر عدالت کو بطور ثبوت پیش کی کہ ایف سی انہیں پکڑ کر اپنی گاڑیوں پر بٹھا کر لے جا رہا ہے۔ اس ثبوت کی بنا پر سپریم کورٹ نے آئی جی ایف سی عبیداللہ خٹک کو سمن جاری کیا کہ اگلی سماعت میں مغویاں کو عدالت میں پیش کی جائے۔ لیکن اس سماعت سے پہلے 28 مئی 2011 کو ان کی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ ان کی جسم پر شدید تشدد اور گلے میں رسی کے نشان تھے۔ عدالتیں بھی ریاست اورفوج کی پابند ہیں ۔ لہٰذا ان سے بلوچ کب کا مایوس ہوچکاہے ۔
(iv)ایسے بہت سے دور دراز کے علاقے ہیں جہاں سے آپریشنو ں کے معلومات تک نہیں ملتے ہیں ۔
نمبر (v)۔ اگر کوئی خوش قسمتی سے رہاہوکر واپس آتا ہے تو وہ شدید جسمانی ،ذہنی و نفسیاتی اذیتوں کے سبب بات کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ زبان کھولنے کی صورت میں دوبارہ اٹھانے کی دھمکی دی جاتی ہے اور دوسری دفعہ اٹھانے کا مطلب قتل ہونا ہوتا ہے۔ اس خوف سے لوگ اپنے ریاستی فورسزکے ہاتھوں حراست ،گمشدگی اور رہائی کے بارے میں بات کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔
بلوچ نیشنل موومنٹ ہر ماہ ریاستی فورسزکے ہاتھوں قتل اور لاپتہ ہونے والے افرادکا باقاعدہ مستند رپورٹ جاری کرتاہے ،جس میں تمام حقائق کو شامل کیاجاتاہے ۔اس میں وہ افراد بھی شامل ہوتے ہیں جنہیں فوج کئی دن،مہینے یاسال تشدد کے بعد رہاکرتاہے ۔ ہم ان کی پوری تفصیل شائع کرتے ہیں تاکہ متعلقہ تمام اعدادوشمار مستند اورشک و شبہ سے بالاتر ہوں۔