بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے جاری کردہ بیان میں بلوچستان میں جاری آپریشنز،بلوچ اجتماعی نسل کشی پر اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی خاموشی کوتاریخ کا بدترین باب قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی فورسز اپنے تمام متوازی طاقت کے مراکز کے ساتھ بلوچ قوم کی نسل کشی میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان کا کوئی علاقہ ریاستی جبر و زیادتیوں سے محفوظ نہیں۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر آپریشن، عام آبادیوں میں لوٹ مار، تشدد اور اغواء معمول بن چکے ہیں۔ اسی طرح قابض ریاستی افواج نے حراستی قتل عام میں بھی تیزی لائی ہے۔ گزشتہ روز ضلع کیچ میں ماسڑ نور احمد بلوچ کی لاش برآمد ہوئی جسے ڈیڑھ سال تک اذیت ناک حراست میں رکھنے کے بعد شہید کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی ریاست کے جنگی جرائم پر خاموشی سے عیاں ہے کہ یا تو وہ بلوچ قتل عام میں ریاست کے ساتھ ایک فریق بنے ہوئے ہیں یا ریاستی طاقت کے سامنے انتہائی بے بس ہوچکے ہیں۔ بے بسی کی صورت میں انہیں انسانی حقوق کے نام اپنی اپنی دکانوں پر تالا لگانا چاہئے کیونکہ انسانی حقوق کے نام پر بے عملی، غفلت اور بے بسی انسانیت کی توہین ہے۔ اس طرح یہ ایک منافع بخش کار وبار کے سوا کچھ اور تصور نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ نام نہاد انسانی حقوق کے اداروں کی طرح سول سوسائٹی اورمیڈیا بھی ریاستی بیانیے کی تشہیر و دفاع کا باقاعدہ ذریعہ بن چکے ہیں۔ آج نام نہاد آزاد میڈیا بلوچ نسل کشی میں ریاستی بیانیے کو پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کرکے نہتے بلوچوں کو دہشت گرد قرار دلانے کی کوشش میں ہے۔ جبکہ بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کُشی اور استحصال پر گونگے اور بہرے بن چکے ہیں۔ یہ سب بھی پاکستان کے جنگی جرائم پر ایک دن تاریخ میں جوابدہ ٹھہریں گے۔ اس وقت مکران میں بیشتر علاقوں کو فوجی کیمپ وچوکیوں سے سیل کرکے عوام کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ پورا بلوچستان ایک فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کررہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں آزادی کی جدوجہد بلوچ قوم کا فطری حق ہے اور ہماری قومی تحریک عالمی برادری کے متفقہ اصول و قوانین کے عین مطابق جاری ہے مگر تہذیب سے عاری پاکستان دنیا کے قوانین اور انسانی روایات کو پیروں تلے روندکر پوری فوجی قوت و ڈیتھ سکواڈز کے ذریعے بلوچ سرزمین پر اپنے قبضہ کو دوام دینے اور استحصالی وعسکری منصوبوں کی تکمیل کے لئے آپریشنوں میں نہایت تیزی لاچکی ہے۔ یہ بلوچ قوم کے لئے ایک مشکل اور کھٹن دور ہے۔ لیکن بلوچ قوم اپنی قومی آزادی کے لئے دشمن کے تمام مظالم کا مقابلہ کرے گی۔ دوسری طرف پاکستان کی ایسی درندگی اور انسانیت سے عاری مظالم مہذب اقوام و انسانی حقوق کے اداروں کے وجود کے لئے بھی چیلنج سے کم نہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے مزید کہا کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ پاکستان کی مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کی پالیسیاں دنیا کے سامنے عیاں ہورہی ہیں۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت مہذب ممالک اس دہشت گرد ریاست کے خلاف راست اقدام اُٹھائیں اور بلوچستان میں نسل کشی اور جنگی جرائم رکوانے کے لئے عالمی فورمز میں پاکستان کو جوابدہ بناکر آزاد بلوچستان کے قیام کے لئے راستہ ہموار کریں۔ آزاد بلوچستان اس خطے سمیت پوری دنیا کو پاکستان کی شدت پسندی اور دہشت گردی سے محفوظ بنانے کی ضامن ہو سکتی ہے۔ اس خطے میں امن و سلامتی اور پائیدار ترقی کا واحد ذریعہ بلوچستان کی آزادی سے مشروط ہے۔ امریکہ نے 9/11 کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالر مہیا کئے اور آج اُس نتیجے پر پہنچا ہے جس کا ہم بہت پہلے اظہار کر چکے تھے۔ پاکستان امریکہ و اتحادیوں سے پیسے بٹورتا رہا اور انہی سے آکسیجن پاکر پاکستانی فوج نہ صرف بلوچ نسل کشی میں تیزی لا سکا ہے بلکہ مذہبی شدت پسندوں کو بھی مضبوط اور توانا بناتا رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اور دیگر ممالک پاکستان کے چھپے چہرے کو پہچان کر پاکستان پر ہر قسم کی پابندیاں عائد کریں تاکہ دہشت گردوں کی نرسری اور پناہ گاہیں ختم ہوں اور دنیا امن سے رہ سکے۔ افغانستان اور انڈیا میں پاکستان سے ہر روز دہشت گرد سرحد پار کرکے کارروائیوں کرتے ہیں مگر مغربی دنیا میں کہیں بھی کوئی واقعہ ہو تو دہشت گرد کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ پاکستان سے ضرور ہوتا ہے۔ لہٰذا دنیا کے نقشے پر اس دہشت گرد اور انسان دشمن ریاست کے وجود کا قیام انسانیت کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔