ایسا ہی ہوگا ایسا کیونکر نہ ہو؟ کیوں پروفیسر، ڈاکٹرز، انجینرز، وکلا، ادباء اور صحافیوں کو اب تک یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ یہ پاکستان ہے یہ پنجاب کی مفادات کی نگہبانی کی حصول کے خاطر ایک فوجی کیمونٹی ہے۔ پنجاب کیلئے مفاد حاصل کرنے اور ان کو تحفظ دینا پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔ اس کو سمجھنے کے بعد بھی صرف اور صرف پنجاب کے روشن مستقبل خوشحالی اور ترقی کیلے اپنی زمین اور اپنی قوم کا دلال بن کر ہمیشہ ہمیشہ پاکستانی فوج آئی ایس آئی اور ایم آئی کے جی حضوری اور خدمت کرنا گواراہ نہیں تو ظفر حسن کی طرح تشدد سہنے اور روڈ کنارے مرنے کیلے تیار ہوجاو۔
ظفر صاحب کا نظریہ جو بھی تھا جس قوم جس سرزمین سے تعلق تھا اور بلوچ قوم اور بلوچ قومی مسئلہ کیلے ظفر صاحب کےاحساسات اور خیالات کیا تھے کیا نہیں تھے وہ کم سے کم میرا ہر گز درد سر نہیں ہے ظفر صاحب کیلے میری درد و تکلیف کی بنیادی وجہ انکا ایک روشن خیال انسان اور عالم فلسفہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم سے کم پاکستان جیسے ملک کیلے بطور ایجنٹ کام نہیں کرنا تھا وہ اگر ایسا کرتے تو چند پیسوں اور مراعات کی خاطر آج کم از کم ایک انگھوٹے چھاپ سپاہی کی ہاتھوں ایک فلسفہ علم سے بھری جسم و جان پر موت کو گلے لگانے تک تشدد نہیں سہتے۔
جب بھی تاریک راہوں میں کوئی انسان علم کی روشنی کو ہاتھ میں لیکر اندھیروں کو چیرتا ہوا فرسودہ عقائد روایات اور خیالات کے ساتھ ظلم اور ناانصافیوں پر چیخ چلا کر سفر کرتا ہے تو پھر لازم ہے یہ روشنی کی سفر ان کیلے ناگہوار اور ناقابل برداشت ضرور ہوگا۔ جن کی خوشحالی مفاد اور عیش عشرت کی زندگی ہمیشہ دوسرے لوگوں کی پسماندگی اور جہالت میں پہناں ہووہ تو چاہتے ہیں پسماندگی جہالت اور لاعلمی ہمیشہ قائم و داہم رہے۔ کیونکہ وہ علم ہی کی رونق ہے جس سے زہن کے دریچے کھل جانے کے بعد انسان کسی بھی دوسرے انسان یا طبقے کی غلامی تابعداری اور محتاجی کسی بھی صورت قبول نہیں کرتا۔
اب ایسے علم سے محروم پسماندہ مذہبی جنونیت انتہاء پسندانہ قبائلیت پیری و مرشدی کی مضبوط ذنجیروں میں جھکڑے ہوئے معاشرے میں علم و فلسفہ کی کیا قدر و اوقات ہوگی یا تو پھر ایسے معاشروں میں اپنی علم و تخلیقات کو دروازوں ے کے پیچھے چند ٹکوں کیلے بیچھتے رہو یا پھر سقراط بنو سچائی کی زہر کو پی کر آرام کرو ۔
پہلے بچوں کو یہی تنبیہ کی جاتی تھی کہ چوری وغیرہ کروگے تو پولیس اور فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوگے اب تو یہی سبق سکھایا جانے لگے گا کہ اگر طالبعلم، معلم، ڈاکٹر بنوگے یا شعور حاصل کروگے تو پھر بوٹوں اور وردی والوں کے ہاتھوں سڑک کنارے کتے کی موت مارے جاوگے۔
آج اگر علم و ادب فلسفہ اور صحافت کا جنازہ اس معاشرے سے نہیں اٹھا ہوتا یا سب کچھ خوف کے شکار ہوکر چند لفافوں میں بند ٹکوں کی خاطر اپنی ضمیر و ایمان اور تخلیق و علم کو نہیں بیچھتے تو کم سے کم ظفر صاحب کی قتل کے حوالے سے پاکستانی خفیہ اداروں اور فوج کے خلاف ایک موثر ردعمل ضرور دیکھنے کو ملتا۔
تمام با علم انسان عملاً اس ناسور ریاست کے خلاف آواز اٹھائیں مظلوموں کی تحاریک کا عملاً ساتھ دیں کیونکہ اس ناسور سے چھٹکارہ حاصل کرنے سے ہی علم و فلسفے کی قدر و قیمت بحال ہوگی۔