ارتباط اور تاریخی عمل – شہیک بلوچ

315

 جب انسان خود سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تب وہ اپنے ارد گرد دوسروں سے بھی رابطہ قائم کرنے کا راستہ ہموار کرتا ہے اور یوں ارتباط کا یہ سلسلہ اہم اجتماعی کردار کو تشکیل دیتا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ہر منظم و مشترک کوشش نے ناممکن کو ممکن کردکھایا ہے اور اجتماعی کارکردگی انفرادی دانشمندی سے بالاتر ثابت ہوئی ہے۔ آج کے دور میں بات اداروں کی ہوتی ہے جو کہ انسانی رابطوں کی اعلی ترین تخلیق ہے، اداروں کی نوعیت انفرادی ارتباط کے ذریعے تعین کیے جاتے ہیں جہاں رابطے استحصال کی بجائے احترام پر مبنی ہو وہاں بہتری کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جس کی واضح مثال جاپان ہے جہاں ایک عام ورکر اور مینجر ایک ٹیبل پر لنچ کرتے ہیں اور مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں۔ جاپانی اگر اپنی کارکردگی میں دیگر اقوام سے بہتر ہیں تو اس کے پیچھے ان کے درمیان منظم ارتباط ہے۔

اصل طاقت یہی ہے کہ فرد خود سے اور اپنے ارد گرد سے رابطہ کیسے قائم کرتا ہے اور پھر اس رابطے کو قائم کیسے رکھتا ہے۔ دنیا کے عظیم لیڈروں نے وہ کردکھایا جو دوسروں کے نزدیک ناممکن تھا لیکن وہ ایسا اس لیے کر پائے کہ وہ خود کو خود سے اور دوسروں کو خود سے جوڑے رکھنے کے فن سے آشنا تھے انہوں تاریخی عمل کے نشیب و فراز سے یہ سیکھ لیا تھا کہ خود کو خود سے کاٹ کر دوسروں سے کاٹ کر تنہا رہ جانے والوں کے ہاتھ ناکامی کے سواہ کچھ نہیں آتا۔ ایک حوالہ یہاں پر ابراہم لنکن کا جنہوں نے خانہ جنگی کے دوران ایک خط لکھا کسی فوجی حکام کے نام اور اسے اس کی غلطیون کا احساس دلایا۔ ڈیل کارنیگی مزید کہتا ہے کہ کیا آپ سمجھتے ہیں اس نے وہ خط ارسال کردیا؟ نہیں اس نے ایسا نہیں کیا۔۔۔

آخر کیوں؟

اب ارتباط کے پہلو سے ایک جائزہ لیتے ہیں، لنکن نے پہلے خود سے رابطہ کیا اور خود کو جنگی صورتحال میں جھونک کر نفسیاتی حرکتوں کا مرتکب پایا تب اسے اندازہ ہوا کہ بہ حیثیت انسان اس سے بھی یہ غلطی مرتکب ہوسکتی تھی اور اسی ذاتی رابطے نے لنکن کو وہ خط ایک طرف رکھنے پر آمادہ کیا اور یوں وہ دوسروں سے قائم رابطے میں کوئی دراڑ لگنے سے بچ گیا۔ ذرا سوچیے کہ آج ہم کیا کررہے ہیں؟ اگر ہم کوئی غلطی دیکھتے ہیں تو کیا خود سے رابطہ کرتے ہیں؟ اگر کرتے تو صورتحال آج اس نوبت تک کیوں پہنچ پاتی؟ ہم تو بس طنزیہ گفتگو اور مزید الزامات لپیٹ کر راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں اور یوں ہم تاریخی عمل سے بھٹک جاتے ہیں۔ طاقت کسی صورت اپنی رائے کو مسلط کرنے کا نام نہیں اور ایسا کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ اگر ہوتے تو بلوچ بھی آج پاکستان کی زبردستی پر قائم تسلط کو تسلیم کرلیتا لیکن بلوچ لڑ رہا ہے۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ وہ تسلط و جبر کے خلاف بغاوت علم بلند کرتا ہے۔ انسانی ارتباط کے لیے جبر زہر قاتل ہے اور اسی جبر کو ہم نے اپنے رویوں میں اپنا رکھا ہے۔ شاید آج کسی حد تک بہتری آگئی ہے اور برف کافی حد تک پگل چکی ہے لیکن اب جو ارتباط قائم کرنے اور پالیسی ساز اداروں کی جانب تحریک کو لے جا رہے ہیں ان کے خلاف محاذ کھولے جارہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ان حالات میں اپنے رویوں پر غور کرتے ہوئے ان میں تبدیلی لائی جائے کیونکہ جو تبدیلی لاچکے ہیں وہ تاریخی عمل کا شعور رکھتے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ جس منزل کے وہ سپاہی ہیں وہ بغیر منظم ارتباط کے ممکن نہیں۔ ان کا راستہ تو نہیں روکا جاسکتا کیونکہ جب ریاست کا جبر آپ کے جبر سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن اس جبر کے سامنے انکا شعور کھڑا ہے اور اس شعور کو کوئی جبر ختم نہیں کرسکتا البتہ شعور نے ہمیشہ جبر کو مات دی ہے۔ آج شعور تاریخی عمل کو سمجھتے ہوئے نئے رابطوں کا تقاضا کررہا ہے جو وقت و حالات کے مطابق منزل مقصود تک پہنچنے میں ہماری مدد کرینگے ایسے میں شعور کے آگے کھڑے ہونے کی بجائے شعور کا ساتھ دینا ہی تاریخی ذمہ داری ہے۔