اتحاد کے موضوع پر اکثر و بیشتر بحث میں الجھتے ہوئے ہم فکری سنگت کوئی راستہ نکالنے کی بجائے مسائل کا انبار کھڑا کردیتے ہیں جن کو دیکھتے ہی ساری امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی انقلابی روش ہے کہ محض کسی عمل کے نتیجے میں نقصانات و مسائل کو زیادہ اہمیت دینا لیکن فوائد و مسائل کے مشترکہ حل کے اہم پہلو کو یا تو سرے سے نظر انداز کردینا یا پھر اسے ثانوی درجہ دینا۔ اتحاد کا مطلب ایک دوسرے کو ماتحت لانا ہرگز نہیں اور معذرت کیساتھ ہمارے آزادی پسند حلقوں میں حاوی ہونے کا رجحان ہی دراصل اتحاد کی راہ میں رکاوٹ رہا ہے اور یہاں بلوچ کی انسانی نفسیات کو مکمل نظرانداز کردیا جاتا ہے جہاں بلوچ دبائو کے نتیجے میں بغاوت کو ترجیح دیتا ہے اور یوں ہم ایک دوسرے کو الزام دیتے ہے کہ میں تو اتحاد چاہتا ہوں لیکن دوسرا نہیں چاہتا لیکن ذرا بھی ہم غور نہیں کرتے کہ اگر میں اتحاد چاہتا ہوں تو دوسرے پر الزام لگانے کی نوبت ہی کیوں؟ دوئم ابھی تک لفظ “میں” میں پھنس کر کوئی مثبت حل پیش کرنے میں ناکامی کیوں؟ آیا ہمارے اندر وہ لچک بھی ہے جو ہمیں مستقبل قریب میں اشتراک عمل تک پہنچائے؟
رویوں کی اہمیت ہوتی ہے اور اس سے انکار تبھی کیا جاسکتا ہے جب انسانی نفسیات اور جدوجہد کے حوالے سے شعور میں کمی ہو۔ ایک آزادی پسند لیڈر یا جہدکار اور ایک ریاستی پارٹی کے لیڈر و کارکن میں اگر رویوں کا فرق نہ ہو تو دونوں میں سے کس کو بہتر کہا جائے؟ ایک انقلابی اپنے عہد و پیمان میں مثالی ہوتا ہے کہنے کو تو پارلیمانی جماعتوں کے رہنما و کارکن بھی عوام سے لفاظیت میں ہمدردی رکھتے ہیں لیکن ان کا عمل محض ذاتی و گروہی مفادات کا طواف کرتا ہے ایسے میں اگر انقلابی رہنما،انقلابی پارٹی و انقلابی جہدکار بھی اسی کج روی کی راہ پر چل پڑے تو کیا فرق رہ جاتا ہے؟ سمجھنے کی بات ہے کہ جس نفسیات میں ہم الجھ چکے ہیں وہ نوآبادیاتی میکانزم کی عطا کردہ ہے جو آپ کو اشتراک عمل سے روکنے اور مزید مصیبتیں کھڑی کرنے میں مدد دیگی لیکن آپ اگر شعوری طور پر نوآبادکار کے نفسیاتی پنجوں سے نکلیں گے تب آپ اتحاد کی راہ ہموار کرینگے کیونکہ مظلوم جتنا طاقتور ہوگا اتنا ہی وہ نوآبادکار پر حاوی ہوگا اور دیسی کا اتحاد ہمیشہ سے نوآبادکار کو کھٹکتا رہا ہے اس لیے وہ الجھنیں پیدا کرتا ہے اور ایسی نفسیات کو انجیکٹ کرتا ہے جو مایوس کن کیفیت کی جانب لے جاتی ہے لیکن مظلوم کا شعوری ادراک اسے اس سطح پر لے جاتا ہے جہاں وہ نوآبادکار کے لیے الجھنیں پیدا کرتا ہے اور خود کو توانا کرتے ہوئے نجات حاصل کرلیتا ہے لیکن جو طاقت نجات کے لیے ضروری ہے اسے مشترکہ طور پر ہی اشتراک عمل سے جنم دیا جاسکتا ہے وگرنہ جتنا دیسی تقسیم رہتا ہے اتنا ہی وہ طاقت سے دور رہتا ہے۔
بلوچ تحریک میں اتحاد و اشتراک عمل کے لیے کی جانیوالی کوششوں میں رویوں کی خامیاں واضح ہیں اور جس قدر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے کیونکہ نا ہی وقت و حالات میں جدوجہد کے تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا اور نا ہی ریاست کی طاقت کو بلکہ دشمن کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا گیا یوں ریاست نے جب اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنا شروع کردیا تب بجائے کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیڈرشپ نے ایک دوسرے پر الزامات لگانا شروع کردیا۔ کسی نے بھی اپنے رویے میں لچک کا بالیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اپنے کارکنوں کو اپنے محدود سرکلز تک رکھ کر ایک دوسرے کے خلاف گمراہ کیا اور نوبت نفرت آمیز سنگین الزامات تک پہنچ گئی اور ایسے تجزیے بھی لکھے گئے کہ دوسرے تنطیم کا سربراہ اگر مرجائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ہم ہیں تو تحریک ہم سے ہے۔ اب ایسے رویوں کیساتھ اشتراک عمل کیسے ممکن ہوتا ہے یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ میں مانتا ہوں انسان میں خامیاں ہوتی ہیں لیکن اس حد تک کون جاتا ہے؟ کیا ایسے ہی ہم نجات کی راہ تک پہنچ سکتے ہیں؟ مقصد ہرگز کسی سنگت کی دل آزاری کرنا نہیں لیکن ہمیں احساس ہوجانا چاہیے کہ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانی چاہیے اور اسی طرح ہم آگے بڑھ سکتے ہیں وگرنہ ہمیں آج تک نفرت نے ماسوائے تباہی کے کچھ نہیں دیا۔ ہمیں دنیا کے مہذب اقوام سے سیکھنا ہوگا، اس وقت بلوچ قوم ایک انسانی المیے سے گذر رہی ہے اور بلوچ آزادی پسندوں کا اشتراک عمل ہی اس المیے کو روک سکتا ہے، اس کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے اور جب ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لائینگے تب اتحاد ہرگز مشکل نہیں ہوگا۔ الزامات و نفرت انگیزی کی بجائے ہمیں اصل مسائل کیخلاف نبردآزما ہونا ہوگا اور جو دوست لکھ سکتے ہیں انہیں اس حوالے سے لکھنا چاہیے کیونکہ یہ ایک تاریخی فریضہ ہے کہ تحریک کو ان مسائل سے نکال کر از سر نو صف بندی کرنے میں مشترکہ کوششیں کرنی ہونگی اور ایسا متحد ہوئے بغیر ممکن نہیں لیکن اتحاد کے لیے صحیح رہنمائی درکار ہے جو ہر طرح کے نفرت سے پاک ہو۔