بلوچ نیشنل فرنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے بی ایس اوآزادکے آگاہی مہم پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ کینیڈا میں جاری بی ایس اوآزاد کا آگاہی مہم مثبت عمل ہے ،تمام آزادی پسند بلوچوں کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے تاکہ عالمی دنیا کو بلوچ قوم پر تسلسل کے جاری پاکستانی ریاستی دہشت گردی سے آگاہ کرایا جاسکے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بلو چ اور بلوچستان سے متعلق خبروں پر ریا ست نے مکمل پا بند ی عائد کردی ہے اورنام نہاد آزاد میڈیانے اس ریاستی دباؤ کی وجہ سے اپنی صحافتی ذمہ داریوں سے دستبردارہوکرریاست کے اس غیرجمہوری پالیسی اورجبرکے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اورمکمل طورپر پاکستانی بیانیے کی تشہیر کررہے ہیں، جس میں صرف پاکستان کا موقف شائع و نشر کیا جاتا ہے ،پاکستانی مظالم سے چشم پوشی کی جارہی ہے جبکہ بلوچ نسل کشی اور غیرانسانی تشددو بربریت کے بارے میں مکمل میڈیا بلیک آؤٹ ہے ،اس وقت مقبوضہ بلوچستان کے طول وعرض میں قابض پاکستانی آرمی اوردیگروحشی سیکورٹی ادارے تمام تر عالمی قوانین و کنونشزکو پاؤں تلے روندکربلوچ نسل کشی میں مگن ہیں مگرمیڈیاہاؤسز اس صورتحال اوراصل حقائق کواپنے آزادذرائع کے حوالے سے رپورٹ کرنے کے بجائے صرف فوج اورکھٹ پتلی صوبائی حکومت کی ترجمان کے بیانات کوشائع ونشرکررہے ہیں جوکہ نہ صرف صحافت کے متعین عالمی اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ہے بلکہ ریاست کے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بلوچستان میں چین وسکون،ترقی وخوشحالی کی بانسری بجاکرمیڈیاہاؤسز دنیا کو گمراہ کرنے کے پاکستانی کوششوں میں شامل ہوکرجرائم میں شریک ہورہے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جاری فوج کشی اور روزانہ کے بنیادوں جاری فوجی آپریشنوں سے بلوچ قوم اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں ،سیاسی آزادیوں سمیت تمام انسانی حقوق معطل ہیں بلکہ ایسا کوشش کرنے کی سزا ریاست نے غیر اعلانیہ موت مقرر کی ہے اپنے بنیادی سیاسی وانسانی حق کے حصول میں روزانہ بلوچ نوجوان شہید کئے جارہے ہیں ،لاپتہ کئے جاری ہے ،گھربارجلائے جارہے ہیں ،بلوچستان مکمل طورسے جنگی علاقہ بن چکاہے ،لیکن میڈیا پر پابندی اورمیڈیاہاؤسزکے ریاستی دباؤکے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے بلوچستان کے حقائق دنیاکے سامنے نہیں آرہے ہیں اس لئے پاکستان اب تک کسی بین الاقوامی فورم پر باقاعدہ جوابدہ نہیں ہوسکاہے ۔اس وقت بلوچ قومی آوازکودبانے کے لئے بی این ایم،بی ایس اوآزادسمیت تمام آزادی پسندجمہوری بلوچ تنظمیوں کی سیاسی سرگرمیوں اورمیڈیامیں ان کی کوریج پربھی قدغن لگائی ہوئی ہے، اب توآزادی پسندبلوچوں کے خواتین،کمسن بچوں ،نوجوانوں،انسانی حقوق کیلئے سرگرم کارکنوں اورطلباء کونشانہ بنایاجارہاہے تاکہ ریاستی وحشت کے خوف سے کوئی آوازنہ اٹھائے ۔۲۸ اکتوبر۲۰۱۷ کو کراچی کے علاقوں گلستان جوہر،گلشن حدیداورملیرمیں مختلف گھروں پرسندھ رینجرزاورخفیہ اداروں کے اہلکاروں نے چھاپے مارکربی ایچ آراوکے سیکریٹری اطلاعات نوازعطاء،۹سالہ آفتاب، ۱۲ سالہ الفت سمیت بلوچ طلباء عابد،ساجد،الیاس،عارف اوربابوراوت کوجبری اٹھاکرغائب کیاگیا۳۰ اکتوبرکوسریاب کوئٹہ سے بلوچ نوجوانوں سمیربلوچ بیبگربلوچ اورکمسن یوسف بلوچ کوپھر۱۵ نومبرکوکراچی ہی سے بلوچ طلباء بی ایس اوکے سیکریٹری جنرل ثناء بلوچ،مرکزی کمیٹی کے ارکان نصیربلوچ ،حسام بلوچ اوربی این ایم کے کارکن رفیق بلوچ کوسیکورٹی اداروں نے اٹھاکرلاپتہ کردیاجبکہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں روزکامعمول بن گئے ہیں مگرمیڈیاریاستی اداروں کی اس درندگی کوبے نقاب کرنے کے بجائے چھپارہی ہے ۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بی ایس اوآزاد نے گذشتہ ۶ دن سے بلوچ بچوں اورطلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف آگاہی مہم شروع کیاجس میں بلوچ سیاسی کارکنوں نے سوشل میڈیاپراس مہم میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا ہے یہ خوش آئند عمل ہے لیکن بیرونی دنیامیں مقیم بلوچوں کو اس سے کہیں زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیاسی جمہوری آزادیوں پرپابندی بلوچستان میں قومی آوازکو دبایا جارہاہے ایسے حالات میں بیرونی ممالک میں مقیم بلوچ قومی آوازکو دنیا کے مہذب عوام اورعالمی اداروں تک پہنچائیں۔