کردستان ورکرز پارٹی یا پارٹی کارکنان کردستان یعنی پی کےکے جو دنیا میں کرد علیحدگی پسندی کے تناظر میں بطور ایک مضبوط عسکری قوت جانی جاتی ہے کی بنیاد 1978 میں ترکی کے شہر انقرہ میں عبداللہ اوجلان اور چند دیگر بائیں بازو کے طلبا کی جانب سے اس وقت رکھی گئی کہ جب سرد جنگ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ سویت یونین کی بلواسطہ یا بلاواسطہ پشت پنائی و حوصلہ افزائی کی بدولت دنیا بھر کی سرمایہ دارانہ نظام مخالف، ترقی پسند یعنی اشتراکی تحریکیں زور پکڑتی جارہی تھیں جنہیں خاموش کرانے کیلئے اکثر و بیشتر مخالف حکومتیں ریاستی دہشتگردی کا سہارا لے رہی تھی۔
یہ وہ وقت ہے کہ جب ترکی میں بائیں بازو کی تحریک اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی، اس سے قبل ترکی کی حکومتی انتظامیہ اور بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے افراد کے مابین اپنے خیالات اور نظریات کو لوگوں میں مسلط کرنے کی تگ و دو کے باعث ترکی کو شدید نوعت کے دھنگوں و فسادات کا سامنا رہا۔ ترک ریاست نے ریاستی دہشتگردی کے حربے کو زیر استعمال لاتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں تحریکی کارکنان کو جیلوں میں بند کر دیا تھا۔
ترک بائیں بازو کی تحریک نے انقرہ، استنبول اور ترکی کے دیگر کئی شہروں میں زیرتعلیم کرد طلبا کو بھی متاثر کردیا تھا، جس کی وجہ سے انقرہ میں عبداللہ اوجلان و چند دیگر طلبا نے ایک ایسی سیاسی تنظیم کے قیام پر کام کرنا شروع کردیا، جو ترکی میں آباد کرد باشندوں (جن کو تب تک “پہاڑی ترک” کہا جاتا تھا) کے حقوق کی تحریک چلا سکے، جن کے شہری و سماجی حقوق بری طرح سے پامال ہو رہے تھے۔ اس سوچ پر 1974 میں عبداللہ اوجلان کی سرپرستی میں باقاعدہ سے کام ہونا شروع ہوا جو 1978 میں باضابطہ طور پرپی کےکے، کے قیام کے اعلان کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ پی کےکے سے تعلق رکھنے والے اکثریتی لوگ چونکہ ترک بائیں بازو کی تحریک کا یا تو حصہ رہے تھے یا اس سے متاثر تھے، اس وجہ سے پی کےکے کو بائیں بازو کی ترقی پسند تنظیم جان کر بائیں بازو کے ترک رہنماوؤں نے کھل کرپی کےکے کی حمایت کی اور تنطیم کو ہر دستیاب وسائل میسسر کرائی جو اسے تنظیم کاری کے لئے درکار تھی۔
جبکہ پی کےکے تیزی کے ساتھ کرد آبادی والے علاقوں میں تنظیم کاری و ماس موبلائزیشن کے عمل میں مصروف رہی جسکی بدولت بہت ہی کم مدت میں پی کےکے اکثریتی کرد علاقوں میں ایک منظم تنظیم کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی اپنی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پی کےکے نے اپنے پوشیدہ و اصل ایجنڈے کا برملہ اظہار و پرچار شروع کر دیا کہ ترکی کے موجودہ ریاستی ڈھانچے میں کردوں کو کبھی بھی سیاسی آزادی، سماجی حقوق و قومی شناخت نہیں مل سکتی۔ اسلئے کردوں کے تمام مسائل کا حل ایک آزاد ریاست میں پیوست ہے، شروعات میں ترکی پی کےکے کی جانب سے جاری اس پورے سیاسی عمل و حرکات پر مکمل خاموش رہی، لیکن کرد نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کا پی کےکے میں شمولیت اختیار کرنا اور کرد علاقوں میں تنظیم کی جانب سے شروع کی گئی قومی شناخت و آزادی کے پروپیگنڈے کا لوگوں پر اثرانداز ہوتے دیکھ آخر کار ترکی کی حکومت نے 1980 میں پہلی بار پی کےکے کو ایک ریاست مخالف قوت تسلیم کیا اور تنظیم کے خلاف ایک بڑے فوجی آپریشن کا اعلان کردیا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں کی تعداد میں کارکنان کو حراست میں لیا گیا۔ حراست میں لئے گئے اکثر کارکنان پر دیارباکر کی فوجی عدالتوں میں ملک سے غداری کے مقدمات چلائے گئےاور جیلوں میں ان کے ساتھ غیر اخلاقی و انسانیت سوز رویہ روا رکھا گیا۔
مسلح کارروائیوں کی شروعات۔
1980 کی فوجی آپریشن کے بعد عبداللہ اوجلان تنظیم کے کئی دوسرے کارکنان کے ساتھ باحفاظت ترکی سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے اور لبنان میں فلسطین لبیریشن آرمی کے زیر انتطام علاقے میں ساتھیوں سمیت مقیم ہو گئے۔ کردستان میں تنظیم کے ایک بنیادی رہنما نے دیارباکر کی فوجی جیلوں میں کرد سیاسی کارکنان پر روا رکھے گئے فوجی مظالم کے خلاف خود کو احتجاجاً نظر آتش کر دیا، جسں کے بعد اس قسم کی احتجاجی مظاہروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ کئی ایک واقعات میں درجنوں کارکنان نے ایک ساتھ خود کو آگ لگا ڈالا۔ دیارباکر کی جیلوں میں قید پی کےکے کے سینکڑوں کارکنان نے اس احتجاج کو وسعت دیتے ہوئے تا دم مرگ بھوک ہڑتالیں شروع کر دیئے جس کے باعث کئی کارکنان ہلاک ہو گئے۔
ان تمام واقعات و تیزی سی تبدیل ہوتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے 1982 میں ترک۔اردن بارڈر پے پی کےکے کی دوسری کانگرس بلائی گئی جہاں طویل بحث کے بعد کانگرس نے ترک ریاست کے غیر انسانی مظالم، کرد زبان و ثقافت پر ریاستی پابندیوں کا حل صرف اور صرف کردوں کی طرف سے شروع کی جانی والی مسلح جہدوجہد کو قرار دیا۔ اور کردستان لبیریشن فورسز نامی ایک ذیلی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ مسلح محاذ کے لوازمات کو پورا کرنے کا کام سر انجام دیگی۔
2 سال کی تیاری کے بعد 1984 میں پی کےکے نے ترک فوجی چوکیوں پے حملوں سے اپنی مسلح کارروائیوں کی شروعات کی جو 1993 کی جنگ بندی تک جاری رہیں۔
اس تمام عرصے میں ترکی کی افواج و پی کےکے کے گوریلا دستوں کے بیچ چھوٹی بڑی فوجی جھڑپیں ہوتی رہیں پر قابل ذکر فوجی معرکہ 1992 کو پیش آیا جب 30000 ترک و نیٹو افواج نے مشترکہ کاروائی کرتے ہوئے عراق وترکی کے سرحدی علاقوں میں موجود 10000 گوریلوں کو محاصرے میں لینے کے بعد ان کے خلاف ایک خون ریز آپریشن کا آغاز کیا، جہاں دونوں اطراف کو شدید جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا بڑا واقعہ تھا، جب ترکی کے علاوہ کسی بیرونی فوج نے پی کےکے کے خلاف کسی فوجی کاروائی میں حصہ لیا ہو۔
1993 تا 1999 کا درمیانی عرصہ۔
مارچ 1993 میں ترک صدر تورگت اوزل کی طرف سے پہلی بار پی کےکے کو جنگ بندی کی دعوت اور تمام مسائل آپس میں بیٹھ کر حل کرنے کی تجویز پیش کی گئی جس کا پی کےکے کی قیادت نے خیرمقدم کیا اور خیر سگالی کے طور پر ایک مہینے کی جنگ بندی کا اعلان کیا، امن کا یہ سلسلہ دیر تک نہ چل سکا۔ جنگ بندی کے اعلان کے چند ہی دنوں بعد ترکی کے صدر کی پر اسرار موت واقع ہو گئی۔(جو مبینہ طور پرترک انٹیلیجنس ایم آئی ٹی کے احکامات پر ہوا تاکہ بات چیت کا یہ عمل دیر تک نہ چلنے پائے ) ترک صدر کی مبینہ ہلاکت کے فوراً بعد ہی ترک افواج کی کاروائیوں میں تیزی کے باعث پی کےکے کو اپنی یکطرفہ جنگ بندی کے اعلان سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
حالات کی سازگاری اور بات چیت کے لئے مناسب ماحول کی تشکیل کے غرض سے پی کےکے نے پہلے 1995 اور بعد میں 1998 کو یکطرفہ جنگ بندیوں کا اعلان بھی کیا اور اپنے بیشتر فوجی دستے ترکی سے باہر نکال دئیے پر ترکی نے ان جیسے اعلانات کو ہمیشہ پی کےکے کی کمزوری اور پسپائی سے تعبیر کیا اور اپنی فوجی کاروائی میں مزید تندی و تیزی کا اضافہ کیا اور مسائل کے فوجی حل پر زیادہ زور دیا۔ چھوٹی بڑی جھڑپوں کے باوجود اس مختصر دورانیہ میں حالات ایک حد تک سازگار رہے جو عبداللہ اوجلان کی افریقی ملک کینیا سے گرفتاری کے بعد سے ایک بار پھر بگڑ گئے۔
عبداللہ اوجلان کے خلاف عالمی سازش۔
یوں تو ترکی کیلئے اپنے ہمسایہ ممالک کے سرحدی علاقوں میں آباد کرد ہمشہ سے خطرے کا باحث بنے رہے پر پچھلے دس سالوں سے ترکی کی افواج سے نبردآزما عبداللہ اوجلان کی پی کےکے ترکی کی علاقائی سالمیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ بنی رہی ہے۔ جس کے خاتمے کیلئے ترکی قید و بند سے لے کر ہر حربہ آزمانے کے بعد بھی اس تحریک کو کچھلنے میں ناکام رہی ہے۔ اس ضمن میں آخری حربے کے طور پر پی کےکے کے رہنما اوجلان (جو اس وقت ترکی کے ہمسایہ ملک شام میں مقیم تھے ) کی گرفتاری کے لیے سفارتی کوششوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ کیا گیا۔ جس کا اعتراف شام کے اس وقت کے فوجی سربراہ نے ایک تقریب میں یوں کیا کہ اگر شام ترکی کے مطالبات(اوجلان کی حوالگی ) کو پورا کرنے سے قاصر رہتا ہے تو ترکی کی فوج شام پر چڑائی کر سکتی ہے۔ اوجلان کی ممکنہ گرفتاری و ترکی کی حوالگی کے خلاف کرد علاقوں میں شدید احتجاج کیا گیا جہاں درجنوں لوگوں نے احتجاجا خود کو زندہ جلا دیا، دیگر کئی واقعات میں عورتوں نے اپنے شیر خوار بچوں سمیت خود کو نظر آتش کر دیا۔ اس طرح کی شدید احتجاج نے شامی حکومت کو اس خوف میں مبتلا کر دیا کہ اگر وہ کرد رہنما کو ترکی کے حوالے کر دے تو اس کی اپنی کرد آبادی حکومت سے ناراض ہو جائے گی اور مزاحمت کی راہ پر چل پڑے گی۔ چنانچہ شام کی حکومت کی طرف سے اوجلان کو ملک چھوڑنے کا کہا گیا۔ جس کے بعد وہ روسی پارلیمنٹ کی دعوت پر شام چھوڑ کر ماسکو منتقل ہو گئے، پر جلد ہی روسی صدر پریمکوف و ترکی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا کہ اگر روس کردوں کے مسائل سے خود کو دور رکھتا ہے تو ترکی روس کے کسی بھی معاملے میں دخل اندازی سے اجتناب برتے گا۔
تبدیل ہوتے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اوجلان ایک مہینہ ماسکو میں بِتانے کے باد اٹلی کے شہر روم چلے گئے اور وہاں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرائی جس کی منظوری کی حق میں ہزاروں افراد کئی دنوں تک کپکپاتی ہوئی سردی میں احتجاج پر بیٹھے رہے لیکن اطالوی حکام اوجلان کو پناہ دے کر ترکی کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ اٹلی میں پناہ کی درخواست کا التواء میں پڑے رہنا حکام کی طرف سے یہ اشارہ تھا کہ وہ کردوں کیلئے ترکی کو ناراض نہیں کر سکتے۔ جسے دیکھتے ہوئے اوجلان نے مخصوص یقین دہانیوں کی بنیاد پر واپس روس جانے کا فیصلہ کیا اور 16 جنوری 1999 کو وہ ماسکو لوٹ آئے۔ پر پابندیوں و معذرت کا سلسلہ چلتا رہا۔ ترکی کی طرف سے شدید دباؤ کے باعث روس کیلئے اوجلان کو پناہ دینا ممکن نہ تھا۔ اس وجہ سے 29 جنوری 1999کو اوجلان یونان کے دارلحکومت ایتھنز تشریف لے گئے۔ پر یونان نے بھی ان کی کسی قسم کی مدد سے انکار کر دیا۔ یونان اوجلان کو پناہ دے کر ترکی سے اپنے سیاسی و معاشی تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاھتا تھا۔ اس لیئے یونانی حکام نے عبداللہ اوجلان کو اس بات پر راضی کر لیا کہ ان کو جنوبی افریقہ کے ملک کینیا منتقل کیا جائے گا۔
1 فروری 1999 میں اوجلان کو ایتھنز سے کینیا کے شہر نیروبی منتقل کیا گیا اور انہیں یونانی سفارتخانے سے منسلک ایک گھر میں ٹہرایا گیا، جہاں کینیا کے صدر کے بیٹے، کینین انٹیلیجنس سروس کے اہلکاروں و یونانی سفارتکاروں کا ایک وفد ان سے ملنے آیا اور انہیں نیدرلینڈ جانے پر رضامند کیا اور انہیں وہاں تحفظ دلانے کا وعدہ بھی کیا۔
15 فروری 1999 کو عبداللہ اوجلان نیدرلینڑ روانگی کیلئے کینیا سے نکلے۔ انہیں اپنے عملے سے الگ ایک گاڑی میں بٹھایا گیا اور ائیرپورٹ تک لے جایا گیا جہاں انہیں پہلے سے ان کے انتظار میں کھڑے ترک خفیہ ادارے کے اہلکاروں کے حوالےکیا گیا۔
پوری دنیا ان کی گرفتاری کے اس سازش میں حصہ دار بن گئی تھی، کچھ دنوں تک آسمانوں کی بادشاہت کے بعد آخرکار اوجلان کو تا حیات زمیں پر قید کرانے کی سازش پوری ہو چکی تھی۔ انہیں سیدھا ترکی میں امرالی نامی ایک جزیرے میں بنائے گئے جیل منتقل کیا گیا جہاں آج تک وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ جہاں سے وہ آج بھی اپنے باغی گروہ کی نظریاتی رہنمائی کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔
اندرونی اختلافات۔۔
اوجلان کی گرفتاری پی کےکے کیلئے ایک بہت بڑا دہچکا تھا، جس کے پیش نظر کسی بھی قسم کی اناراکی سے بچنے کیلئے تنظیم کی چھٹی کانگرس بلائی گئی۔ جہاں تمام تنظیمی معاملات بنا کسی تعطل کے چلائے جانے و اوجلان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو نظریاتی تعلیم و تربیت سے پر کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ لیکن لیڈر کی گرفتاری کی وجہ سے جو خلا تنظیم میں پیدا ہوا وہ تنظیم کو انتشار، انارکی، و کارکنان کو جہدوجہد سے مایوسی کی جانب لے گئی۔ سینکڑوں کارکنان مایوس ہو کر جہدوجہد سےکنارہ کش ہو گئے۔ تنظیم کے اندر موجود موقع پرستوں، قنوطیوں و دشمن کی ایما پر کام کرنے والوں نے وسیع پیمانے پر ایک پروپیگنڈہ کا آغاز کیا کہ اوجلان کے بعد اب تحریک زیادہ دیر چل نہیں سکتی، تنظیم اپنے اصل مقصد سے بٹھک چکی ہے، جو ہمیں ایک ویران صحرا کی طرف لے جا رہی ہے۔ کئی معصوم کارکنان ان لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے اور تنظیم سے کنارہ کش ہو کر فرار ہو گئے۔
ان حالات میں تنطیم کے مرکزی و بنیادی کارکنان نے اوجلان کی غیر موجودگی میں تنظیم کو بحران سے نکالنے کا بھیڑا اٹھایا۔ اور کارکنان کی نظریاتی و فکری تربیت سے ان کو صحیح راستہ دکھایا۔ دن رات کی کوششوں کے بعد 2004 میں کہیں جا کر تنظیم کو انتشار سے نکال کر ایک بار پھر نظریاتی بنیادوں پر منظم کیا گیا ۔
2004 تا 2013۔۔۔
ترکی میں ہونے والے 2005 کے عام انتخابات سے پہلے پی کےکے نے یکطرفہ جنگبندی کا اعلان کیا تاکہ لوگ اپنا حق رائےدہی ایک پرامن ماحول میں استعمال کرسکیں اور ووٹ کے استعمال کے اپنے بنیادی حق سے محروم نہ رہیں، انتخابات کے مکمل ہوتے ہی پی کےکے پر ایک بار پر آپریشن شروع کر دیا گیا۔ حملوں و جوابی حملوں کا سلسلہ چلتا رہا ، پی کےکے چونکہ ہمشہ سے امن و بات چیت کا خواہاں رہا ہے اسلئے پی کےکے ترکی کی جانب سے کسی بھی نرمی کے اعلان و یقین دہانی کے باعث ایک قدم آگے بڑھاتی لیکن حاصل کچھ نہ ہوتا، عبداللہ اوجلان کی گرفتاری کے بعد تاں 2013 تک پی کےکے کی جانب سے 5 مرتبہ یکطرفہ جنگ بندیوں کا اعلان کیا گیا تا کہ خون ریزی سے بچا جا سکے اور مسئلہ کا ایک مستقل اور قابل قبول حل تلاش کیا جا سکے لیکن ترکی کی حکومت کیلئےپی کےکے سے مذاکرات و جنگ بندی کا اعلان کردوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنا ہے جو وہ کبھی نہیں کر سکتی۔ پی کےکے کو زیر کرنے کی غرض سے ترکی قید و بند جدید فوجی آلات کے استعمال، سفارتی میدان میں پی کےکے کا گھیراو کرنے سے لے کر مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال تک ہر حربہ آزمانے کے بعد اسے شکست دینے میں ناکام ثابت ہوئی۔
2013 کے مذاکرات و جنگبندی۔
یوں تو ترکی پہلے بھی کئی بار بیرونی و اندرونی دباؤ کے زیر اثر پی کےکے سے بات چیت پر راضی رہی ہے لیکن نتیجے کے طور پرحاصل کچھ بھی نہیں رہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ ترک ریاست کے اندر طاقت کی جنگ سمجھی جاتی ہے۔ اداروں یا ان سے منسلک افراد کے مابین طاقت کے حصول کی کشمکش مذاکرات کے عمل میں خلل کا باعث بنی رہی۔
ترک حکومت کا پی کےکے کے حوالے سے بیانیہ کبھی بھی ایک سا نہ رہا ہے اس میں وقت و حالات کے مطابق تبدیلی آتی رہی ہے جو کردوں کے سوال پر اس کی عدم سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے،لیکن جواباً پی کےکے ہر وقت کسی عمل کیلئے راضی رہی ہے جو کردوں کے مفاد میں ہو۔
2013 کے شروعاتی دنوں میں ایک حکومتی وفد امرالی جزیرے میں مقید عبداللہ اوجلان سے ملنے ایا اور انہیں اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ پی کےکے کو ایک بار پھر مذاکرات کیلے راضی کریں، جس کے بعد عبداللہ اوجلان نے امن کیلئے پی کےکے و کردوں کے نام اپنا ایک پیغام لکھا جو 2013 کو دیارباکر میں منقد ایک تقریب میں پڑھا گیا۔
جو دس لاکھ لوگوں کے سامنے پڑھا گیا۔ پیغام میں حکومت و پی کےکے دونوں کو جنگبندی کی دعوت دی گئی تھی چناچہ پی کےکے و ترکی کے درمیان ایک بار پھر مذاکرات شروع ہوئے، مذاکرات کے عمل کو مضبوط و جامع بنانے و اعتماد سازی کیلئے مزاکراتی عمل کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں جنگبندی و فوجوں کی واپسی پر اتفاق ہوا جس کے فوراً بعد ہی پی کےکے کے تمام گوریلہ دستے ترکی سے باہر نکل گئے، دوسرا مرحلہ آئینی ترامیم کے ذریعے کردوں کی الگ قومی شناخت و ان کی زبان و ثقافت کو تسلیم کرنےکاتھا۔ تیسرا مرحلہ جیلوں میں قید تمام سیاسی کارکنان و جنگی قیدیوں کی رہائی و پی کےکے پر سیاسی و سفارتی پابندیوں کا خاتمہ تھا۔ ترکی کی جانب سے جنگبندی کے علاوہ باقی کسی بھی مطالبہ پر کوئی بھی عملدرآمد نہ کیا گیا جس سے ایک بار پر مسئلے کا مستقل حل التوا میں رہ گیا۔ جنگ بندی کا یہ معاہدہ بھی دیگر تمام کی طرح دیر تک نہ چل سکا اور آج ترکی و کرد جنگجو ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے ہیں، جو 30 سال پہلے سے چلے آ رہے ہیں۔
اختامیہ۔
دنیا کے کئی ممالک و یورپی یونین کی طرف سے دہشتگرد قرار دیے جانے کے باوجود پی کےکے آج بھی امن پر بات چیت کرنے کیلئے خود کو تیار رکھا ہوا ہے۔ 1984 سے لیکر آج تک پی کےکے نے جنیوا کنوکشن پر دستخط و فوجی اصولی کا پابند رہنے کا عہد کرنے کے ساتھ ساتھ خیر سگالی، امن و مذاکرات کیلئے دس سے زائد مرتبہ جنگ بندیوں کے اعلانات بھی کیئے ہیں لیکن دوسری طرف سے عدم سنجیدگی کا مظاہرہ و فوجی آپریشنز،کرد رہنما اوجلان کی گرفتاری و عمر قید کی سزا اس بات کی دیلیلیں ہیں کہ کردوں کے جائز حقوق سے انکاری لوگ کبھی بھی پی کےکے کے جائز موقف سے اتفاق نہیں کریں گے۔پچھلے 3 عشروں سے زائد عرصے میں پی کےکے و ترکی کے مابین اس فوجی محاذ آرائی کے نتیجے میں 45000 سے زائد لوگ اپنے قیمتی جانوں سے محروم ہو گئے ہیں جن میں 20000 کے قریب پی کےکے کے جنگجو بھی شامل ہیں، ہزاروں افراد کو ماروائےعدالت و قانون قتل کیا گیا جب کہ کئی ہزار لوگ آج تک جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔
دوسری طرف پی کےکے مشرقی وسطی میں کردوں کی حمایت کے باحث پورے خطے میں اپنا اثرورسوخ پھیلا چکا ہے۔ عراقی شہر سنجار پہ قبضہ ہو یا اس کے ذیلی شاخوں پی جے اے کے و وائی پی جی کا شام و ایران میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ،یہ تمام اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ پی کےکے اب مزید ترکی کے اندر کوئی ایک علاقائی تنظیم نہیں بلکہ خطے میں کردوں کے حوالے سے ابھر رہا ایک اسٹیک ہولڑر ہے جس کی یہ نئی پوزیشن آج نہیں تو کل سبھی کو قبول کرنا ہوگا۔