بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے میڈیا میں جاری کردہ بیان میں کہا کہ مشکے میں یکم دسمبر سے شروع ہونے والی ریاستی فورسز کی زمینی و فضائی آپریشن کئی دنوں سے جاری ہے ،جس میں دو بلوچ بیٹیوں سمیت 8 افراد کو فورسز نے قتل کیا ہے, جبکہ آج ہی تیس کے قریب خواتین و بچوں سمیت درجنوں افراد کو فورسز اغوا کر کے ساتھ لے گئے ہیں، جس میں آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے ہمشیرہ نور خاتوں و کزن صاحب دادسمیت دیگر کئی رشتہ دار شامل ہیں۔ اس وقت مشکے کے مختلف فوجی کیمپوں میں ساٹھ سے زائد خواتین اذیتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اس وقت آپریشن شدت کے ساتھ جاری ہے،مشکے گجلی ،گجلی کور،مشکے سے متصل ضلع واشک کے علاقے راغے میں انسانی بستیوں کو مکمل نذر آتش کرنے کے ساتھ وہاں موجود تمام افراد کو فورسز ساتھ لے گئے ہیں۔پاکستانی فوج نے دوران آپریشن ایک16 سالہ بلوچ بیٹی دختر عرض محمد شکاری،غوث بخش ولدعرض محمد شکاری ،ملک جان زوجہ غوث بخش ،بابل ولد عیدو،عبدالغنی ولد بدل،عرض محمد،خیر بخش ولد علی دوست اور خدا بخش کو دوران آپریشن شہید کر دیاہے۔ لاشوں کو مشکے نوکجو ہسپتال لایا گیا ہے ،جنکو دوران حراست یا فضائی بمباری و شیلنگ میں قتل کیا گیاہے۔ آپریشن میں یہ تیزی ڈاکٹر مالک کے سوات طرز آپریشن کے مشورے اور سرفراز بگٹی کی جانب سے بلوچ نسل کشی کے اعلان کے بعد کیا گیا ہے۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ مشکے کوہ اسپیت میں دوران آپریشن ایک دسمبر کوپانچ پاکستانی کمانڈوز کو سرمچاروں نے نشانہ بنا کر ہلاک کیا ۔اسی روز پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ گدھوں کے ساتھ کوہ اسپیت اور راغے کے درمیانی پہاڑی علاقوں سے گز ر رہے تھے۔ چار اہلکاروں کو ہلاک کیا۔دو روز قبل آواران گورکاہی میں فوجی چوکی پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا، جس سے فورسز کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔
گہرا م بلوچ نے مزید کہا کہ خواتین و بچوں کو قتل کرنا آبادیوں کو نشانہ بنانے سے بلوچ جہد کار کمزور نہیں ہونگے، بلکہ مزید قوت کے ساتھ ریاستی فورسز کو منہ تھوڑ جواب دینگے۔