بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے نامعلوم مقام سے سٹیلایئٹ فون کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ چوبیس دسمبر کو ڈاکٹر مالک کا ہیرالڈ ڈان میں انٹرویو مضحکہ خیز ہے، جہاں وہ ڈیتھ اسکواڈز سے لاتعلقی کی باتیں کر رہاہے۔ اگر ان کی یاد داشت ٹھیک اور حواس برقرار ہیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ حال ہی میں اُس نے سردار عزیز کو نیشنل پارٹی میں لاکر اپنی جماعت میں اہم مقام دلایا۔ سردار عزیز کا ریاستی ڈیتھ اسکواڈ ہونا اور اسے جاننے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ کیچ، خاص کر پیدارک اور گومازی و گرد ونوا ح میں ہر ذی شعور شخص کو معلوم ہے کہ سردار عزیز بے شمار بلوچوں کا قاتل ہے اور یہ سب کچھ ریاستی سرپرستی میں کر رہا ہے۔ ہم نے گزشتہ ہفتے سردار عزیز ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں شہید ہونے بلوچوں کی ایک فہرست بھی شائع کی ہے۔ دوسری طرف نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ملا برکت بلوچوں کو دھمکی دیکر زبردستی سرنڈر ہونے کی ترغیب دیتا ہے اور ایسا نہ کرنے والوں کے رشتہ داروں کو اغوا کراکر ریاست کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے شب و روز کوشاں ہیں اس سے ڈاکٹر مالک کا دوغلہ معیار قوم کے سامنے مزید واضح ہوگیا ہے۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر مالک اور نیشنل پارٹی کی دوسری ذمہ دار قیادت اپنی گناہوں اور انسانیت کے خلاف جرائم کو جھوٹ سے نہیں چھپا سکتے ۔ نیشنل پارٹی اب بھی نام نہاد حکومت کا حصہ ہے اور بلوچستان میں خون کی ہولی بدستور جاری ہے۔ ان کی دور حکومت میں بیس ہزار سے زائد بلوچوں کے اغوا کو ان کی کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز اور سکریٹری داخلہ حسین درانی خود اعتراف کرچکے ہیں اُن کا اعترافی بیان ریکارڈ پرموجود ہیں اور تمام بلوچ خفیہ اداروں کی زندانوں میں اذیتیں برداشت کر رہے ہیں۔ ایسے میں چار جملوں کی انٹرویو سے ڈاکٹر مالک اپنے آپ کو دودھ کا دھلا ہرگز نہ سمجھے کیونکہ ایسے سنگین جرائم کی سزا انہیں ضرور ملے گی۔ ان لاپتہ افراد کی بیس ہزار سے زائد تعداد موجودہ حکومت کی دور میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ 2000 سے اب تک چالیس ہزار افراد اٹھاکر لاپتہ کئے جاچکے ہیں۔ اس تعداد میں کوئی ابہام نہیں اور کوئی اسے کم یا بیش نہیں کر سکتا۔ ہم عالمی اداروں سے مداخلت کی اپیل کرتے ہیں۔ کیونکہ یہاں صورتحال کسی بھی خطے سے زیادہ خطرناک شکل میں ہے۔ اگر شام اور عراق کا بلوچستان سے موازنہ کریں تو وہاں صحافی رپورٹنگ اور فلاحی ادارے کام کر سکتے ہیں مگر بلوچستان میں سب پر پابندی عائد ہے۔ آج بلوچستان برما ، روہنگائی مسلمانوں سے زیادہ متاثر ہے۔ بلوچستان میں بے دخل کئے گئے افراد کی تعداد روہنگیاؤں سے دو گنا ہے۔ اس کیلئے ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ’’ ڈاکٹرز وید آوٹ باڈرز‘‘ کو برما میں روہنگیائی مسلمانوں تک طبی مدد کیلئے رسائی دی گئی مگر بلوچستان کے 2013 میں ضلع آواران اور کیچ میں تباہی مچانے والی زلزلے کے بعد ’’ ڈاکٹرز وید آوٹ باڈرز‘‘ کو بلوچستان میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تاکہ فوجی آپریشن سے متاثر لوگوں کی تباہ کاریاں دنیا کے سامنے آشکار نہ ہوں۔کیونکہ یہاں تباہی برما سے بد تر ہے۔ ڈاکٹر مالک کو یاد ہوگا کہ وہ اس وقت وزیر اعلیٰ تھے اور ’’ ڈاکٹرز وید آوٹ باڈرز‘‘ کو روک کر حافظ سعید کی جماعت الدعویٰ اور خدمت خلق فاؤنڈیشن کو اجازت دیدی گئی تاکہ مذہبی انتہا پسندی کو بڑھاوا دی جاسکے۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر مالک اپنے انٹر ویو میں داعش ( آئی ایس آئی ایس) کی بلوچستان میں وجود سے انکار کرکے زاہد آسکانی جیسے بلوچ ماہر تعلیم کی خون کا سودار کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر مالک اپنے حلقہ انتخاب میں بلوچی کتابوں اور اسکولوں پر پابندی کو بھی بھول چکے ہیں۔ صرف کیچ میں کئی کتابوں کے سٹالوں اورلائبریریوں کو فوج نے چھاپے مارکرلاکھوں کتابیں ضبط کرچکاہے اورلائبریریوں اوربک سٹال بند ہوچکے ہیں ،بلوچستان بھرمیں سینکڑوں سکولوں کو فوج اپنی چوکیوں میں بدل چکاہے ۔ ان تمام جرائم اورفوج کے ساتھ معاون کا کرداراداکرنے کے باوجود ڈاکٹر مالک کا مکر جانا ریاستی بیانیے کومستحکم کرنا ہے لیکن ایسی کوششوں سے وہ اپنے سیاہ کرتوتوں کو نہیں چھپا سکتے۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر مالک نے اپنے انٹرویو میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی ذمہ داری بلوچ آزادی پسندوں پر عائد کرکے سرکاری مخبروں کی دفاع میں بات کی ہے جو کئی بلوچوں کا خون چوس کر عارضی آسائشوں کے حصول میں مصروف ہیں۔ اگر نیشنل پارٹی و دوسرے وفاق پرست پارٹی آزادی پسندوں کے سامنے رکاوٹ نہ بنیں تو کسی کو کسی قصور کے بغیر سزا دینا ہمارا شیوہ نہیں۔ بی ایل ایف عالمی اصولوں کے مطابق بلوچستان کی آزادی کی جد و جہد کر رہی ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی فوج اور اس کی ہمنوا جماعتیں نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ان کو سزا دینا جائر ہے۔ اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ اس انسانی بحران میں ڈاکٹر مالک وان جیسے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لائے۔