امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وضع کی جانے والی قومی سلامتی کی نئی حکمت عملی میں ایک بار پھر پاکستان سے بہتر تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے ‘ڈو مور’ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والی قومی سلامتی کی نئی حکمت عملی کی دستاویز 68 صفحات پر مشتمل ہے۔
نئی حکمت عملی میں جنوبی ایشیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’ہم پاکستان پر اس کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں میں تیزی لانے کے لیے دباؤ ڈالیں گے، کیونکہ کسی بھی ملک کی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے لیے حمایت کے بعد کوئی بھی شراکت باقی نہیں رہ سکتی ہے۔‘
امریکہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’ہم ایک مستحکم اور خود مختار افغانستان چاہتے ہیں اور ایک ایسا پاکستان جو اسے غیرمستحکم کرنے میں ملوث نہ ہو۔‘
’امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان مسلسل اس بات کا ثبوت دیتا رہے کہ وہ اپنے جوہری اثاثوں کا محافظ ہے۔‘
نئی امریکی نیشنل سکیورٹی سٹریٹجی میں پاکستان کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ ’جیسے جیسے پاکستان میں سکیورٹی صورتحال بہتر ہوتی جائے گی اور پاکستان یہ یقین دلاتا رہے گا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکہ کی مدد کرتا رہے گا تو ہم اس کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات بڑھائیں گے۔‘
امریکہ کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کے اندر سے کام کرنے والے شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے امریکہ کو مسلسل خطرات لاحق ہیں۔‘
دوسری جانب امریکہ کی جانب سے قومی سلامتی کے حوالے سے جاری ہونے والی نئی حکمت عملی میں کہا گیا ہے کہ ’امریکہ انڈیا کے ساتھ اپنی سٹریٹیجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرے گا اور سرحدی علاقوں اور انڈین اوشن سکیورٹی میں اس کے قائدانہ کردار کی حمایت کرے گا۔‘
انڈیا کے بارے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم خطے میں انڈیا کی مالی معاونت بڑھانے میں اس کی حمایت کریں گے۔‘
افغانستان کے حوالے سے اس حکمت عملی میں کہا گیا ہے کہ امریکہ خطے میں امن اور سکیورٹی کے لیے افغانستان کا پارٹنر رہے گا۔