جوزے مارتی – انقلابی ورثہ سلسلہ

618

جوزے مارٹی (Jose Marti)
’’کیوبا کی جنگ آزادی کا معمار
لاطینی امریکا کے عوام کا ہیرو‘‘

لاطینی امریکہ میں جوزے مارتی کو دیوتا کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا نام دنیا کے ان ممتاز ترین حُریت پسندوں کی فہرست میں شامل ہے، جو غلامی کے شکنجے میں جکڑے اپنے وتن کی آزدی کے لئے زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے اور اس کانٹوں بھرے راستے پر سفر کرتے ہوئے جاں سے گزر گئے۔

19ویں صدی (1800)کے اوائل میں کیوبا‘ جو اسپین کے قبضے میں تھا‘ گراں خوبی کی زنجیریں توڑ کر آزادی حاصل کرنے کے لئے تڑپ رہا تھا۔ اس دوران متعدد تحریکوں نے جنم لیا، لیکن چوں کہ ان کے پیچھے کوئی طاقت ور نظریاتی قیادت نہیں تھی۔ اس لئے انہیں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ تقریباًنصف صدی کے بعد جوزے مارتی کے روپ میں ایک ایسی شخصیت سامنے آئی‘ جس نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے کیوبا کے محکوم باشندوں کو ایک پلیٹ فارم پریک جارکر دیا۔ اگرچہ کیوبا جوزے مارتی کی زندگی میں آزاد نہ ہوسکا‘ لیکن اس کی تحریک ہی وہ راستہ روشن کیا‘ جس پر چلتے ہوئے کیوبا کے عوام منزل آزادی سے ہم کنار ہوئے۔ اس لئے اسے کیوبا کی جنگ آزادی کا معمار کہا جاتا ہے‘ جس کا اعتراف خود فیڈل کاستر اور اس کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں‘ جوزے مارتی پورے لاطینی امریکا کا ہیرو ہے اور اسے لاطینی امریکا کے ہر ملک میں عقیدت اور احترام کی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔

مارتی انسان کی مکمل آزادی پر یقین رکھتا تھا ار اپنی جدوجہد کے دوران مشکل سے مشکل مرحلے پر بھی اس کے قدم نہیں لڑکھڑائے۔ اس نے لکھا:

’’بلند پہاڑی سے نیچے کی طرف لڑھکتے ہوئے پتھروں کی طرح اچھے خیالات بھی تمام رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اپنی منزل پالیتے ہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ رکاوٹوں کے سبب ان کی رفتار سست پڑجائے‘ لیکن انہیں روکنا نا ممکن ہوتا ہے‘‘۔
اور اس نے اپنی ایک نظم میں لکھا:

’’ اے آزادی‘ تو جن لوگوں کے پاس ہے‘ وہ تیری قدروقیمت سے واقف نہیں‘ اور تو جن لوگوں کے پاس نہیں ہے‘ انہیں محض تیرا تذکرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ جان کی بازی لگاکر تجھے جیت لینا چاہیے‘‘۔

جوزے مارتی ایک شہرہ آفاق شاعر‘ ادیب، صحافی‘ فلسفی اور سیاسی رہنما تھا، جس نے اپنے وطن ، کیوبا کو اسپین کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے نہ صرف قلم کا محاذ گرم رکھا، بلکہ میدانِ کارزار میں لڑتے ہوئے اسے اپنی آخری سانسوں کا تدرانہ بھی پیش کردیا۔

آج گوانتانامو کے نام سے پوری دنیا واقف ہے ، جہاں کے درودیوار امریکی سامراج کی درندگی کے لرزہ خیز مناظر پیش کررہے
ہیں۔ اسی گوانتاناموکے حوالے سے ایک گیت دُنیا بھر میں مشہور رہا ہے اور اس کی دل کش دُھن پر دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں گیت تخلیق کیے جاتے ہیں۔

گلوکار عالم گیر نے بھی اس دُھن پر اردو میں ایک مقبول گیت گایا تھا:
البیلا راہی، میں ہوں البیلا راہی
البیلا راہی،
میں ہوں ال۔۔۔بیلا۔۔۔را۔۔۔ہی۔۔۔۔۔۔

یہ گیت جوزے مارتی ہی کی چند مشہور نظموں سے اخذ کیا گیا ہے، لاطینی امریکا کے تمام ممالک میں اس گیت کو ’’ قومی
ترانے‘‘ کی حیثیت حاصل ہے اور جب بھی اور جہاں کہیں اس گیت کے بول ہوا کے دوش پر اُبھرتے ہیں، بچے بوڑھے، جوان، مرد اور عورتیں دیواہ وار اُٹھ کر رقص کرنے لگتے ہیں۔

کوبا کی جنگ آزادی کے ہیرو اور بے مثل شاعر ‘ جوزے مارتی نے ایک مختصر زندگی پائی، لیکن اس مختصر عرصے میں اس نے اپنی انقلابی جدوجہد کے ذریعے کیوبا کے تمام سیاسی گروپوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا، جس کا مقصد نو آبادیت اور امریکی توسیع پسندی سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔ اس کی نظموں کے تین مجموعے شائع ہوئے، جو اسپینی زبان بولنے والے تمام ممالک میں بے حد مقبول ہیں ۔ اس کی نثری تخلیقات کی تعداد بہت زیادہ ہے، جو اس کی موت کے بعد 1936اور 1953کے درمیانی عرصے میں 73جلدوں کی صورت میں منظر عام پر آئے۔ جوزے جولین مارتی پیریز 28جنوری1853کو کیوبا کے ایک شہر لاہبانا میں پیدا ہوا۔ اس کے والد ماریانومارتی ناواروا اسپینی نژاد فوجی تھے۔ جب کہ والدہ‘ لیونور سپریز کا بریرا کا تعلق جزائر کا ناری سے تھا۔ جوزے مارتی کی سات بہنیں تھیں‘ جو عمر میں اس سے چھوٹی تھیں۔ جب اس کی عمر چار سال تھی تو یہ خاندان کیوبا سے نقل مکانی کرکے اسپین کے شہر ویلنیشیا میں آباد ہوگیا لیکن دو سال بعد وہ وہاں سے واپس آگئے۔ چھ سال کی عمر میں جوزے مارتی کو ایک مقامی پبلک سکول‘ انسٹی ٹیوٹ ڈی ہوانا میں داخل کرادیا گیا ۔ اس اسکول میں اس کی تربیت مشہور ماہر تعلیم رافیل ماریاڈی مینڈائیونے کی، جس نے مارتی کے سیاسی نظریات کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

جوزے مارتی ایک عظیم ادیب‘ شاعر اور صحافی ہونے کے ساتھ ایک عمدہ مصور بھی تھا ۔ اس کی ابتدا اس وقت ہوئی، جب 1867میں اس نے ہوانا کے مشہور مصوری اور مجسمہ سازی کے اسکول میں داخلہ لیا۔ 1869میں، جب وہ صرف سولہ سال کا تھا تو “ABDALA”کے نام سے اس کا پہلا ڈرامہ شائع ہوا۔ جس کا موضوع حب الوطنی تھا۔ اس سال اس کی مشہور سانیٹ “10De Octobre”(دس اکتوبر) منظر عام پر آئی۔ جو سب سے پہلے اس کے اسکول کے اخبار میں شائع ہوئی۔ تاہم اسی برس اسپینی نوآبادیاتی حکومت نے اس سکولکو بند کردیا اور اس طرح جوزے مارتی کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اپنے وطن پر اسپینی حکم رانی کے خلاف اور غلاموں کی خرید و فروخت کے خلاف (جو اس وقت کیوبا میں رائج تھی) اس کے دل میں نفرت کا لاوا اُبل رہا تھا اور وہ اپنی باغیانہ تحریروں اور تقریروں کے سبب نو آبادیاتی حکم رانوں کے لئے ایک خطرناک آدمی بن گیا۔ وہ نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف سرگرم عمل دو زیر زمین اخبارات Al Diable Cojveloاور La Partria Libra کے منتظمین اور قلم کاروں میں شامل تھا۔ جنوری 1869میں کیوبا کے ایک طالب علم کو محض اس جرم میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا کہ اس نے ایک اسپینی فوجی افسر کے راستے سے ہٹنے میں دیر کردی تھی۔ اگلے دن مارتی کی ایک باغیانہ نظم شائع ہوئی۔ جس میں وطن کے لئے جان کی بازی لگانے کا درس دیا گیا تھا۔ یہ نظم اس کے ایک دوست، فرمین ڈو مینگیز کی مدد سے شائع ہوئی تھی۔ اس لیے وہ بھی عتاب میں آگیا۔ جب پولیس نے ڈومینگیزکے گھر پر چھاپا مارا تو وہاں سے ایک خط بھی برآمد ہوا۔ جو مارتی اور ڈومینگیز نے مشترکہ طور پر اپنے ایک ہم جماعت کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں انہوں نے اسے غدار کے نام سے مخاطب کیا تھا، کیونکہ وہ اسپینی فوج میں بھرتی ہوگیا تھا۔ چنانچہ ’اکتوبر 1869میں‘ جب مارتی کی عمر صرف سولہ سال تھی، اس پر بغاوت کا الزام عاید کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ چار ماہ تک مقدمے کی سماعت کی سماعت ہوتی رہی۔ جس کے دوران جوزے مارتی نے یہ الزام تسلیم کرلیا کہ وہ اسپینی حکمرانی سے نفرت کرتا ہے، چنانچہ اسے چھ سال قید بامشقت کی سزا سنادی گئی۔ اس کی ماں اپنے بیٹے کی رہائی کے لئے مسلسل حکومت سے اپیلیں کرتی رہی۔ اس کے والد نے بھی اپنے ایک وکیل دوست کی خدمات حاصل کیں، لیکن ساری تدبیریں بے سُود ہوئیں۔ امیری کے دوران جوزے مارتی شدید بیمار ہوگیا اور اس کی ٹانگیں جو ہر وقت بیڑیوں میں جکڑی ہوتی تھیں، زخموں سے بھر گئیں۔ یہ رقم اتنے گہرے اور خوف ناک تھے کہ اس کے بعد چلنے پھرنے کے لئے مارتی کو زندگی بھر چھڑی کا سہارا لینا پڑا۔

تین سال تک جیل کے عذاب سے گزرنے کے بعد مارتی کو قید و بند سے تو نجات مل گئی لیکن اسے ہوانا سے بے دخل کرکے کیوبا کے ایک علاقے Isla De Pinosمیں بھیج دیا گیا اور وہاں اس کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کردی گئی۔ تاہم کچھ عرصے کے بعد حکومت نے محسوس کیا کہ کیوبا میں رہتے ہوئے وہ ہمیشہ اس کے لئے خطرہ بنا رہے گا۔ اس لئے اسے جلاوطن کرکے زبردستی اسپین بھیج دیا گیا۔ اسپین میں مارتی نے یونیورسٹی آف میڈرڈ اور یونیورسٹی آف ساراگوسا میں قانون، فلسفے اور ادبیات کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ساتھ کیوبا میں اسپنی حکومت کے مظالم کے خلاف مضامین بھی لکھتا رہا۔
یہیں اس کے ادبی کیریئر کا آغاز ہوا اور اس کی دل کش نظمیں اور مضامین تواتر سے منظر عام پر آنے لگے۔ اسپین میں اس نے بیچلرآف آرٹس کی ڈگری اور ’’شہری حقوق‘‘ کی قانونی سند بھی حاصل کی۔ پھر وہ میکسیکو سٹی جاکر ایک اخبار نویس کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔

میکسیکو کی فوجی حکومت کو اس کی تیز و تند پسندنہ آئیں۔ وہ اسے گرفتار کرنے ہی والی تھی کہ وہ وہاں سے فرار ہوکر فرانس چلا گیا۔ جہاں اس نے اپنا مشہور ڈراما “Amor Can Amor Se Paga” تحریر کیا لیکن فرانس میں اس نے زیادہ عرصہ نہیں گزارا اور ایک فرضی نام سے سفر کرتا ہوا 1877میں کیوبا جا پہنچا۔ کیوبا میں اسے ملازمت نہیں ملی تو وہ وہاں سے گواٹے مالا چلا گیا، جہاں اسے یونیورسٹی آف گواٹے مالا میں فلسفے اور ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے جاب مل گیا لیکن وہاں کی حکومت نے بھی اسے ’’خطرناک‘‘ شخص قرار دے دیااور اس پر سختیاں کرنے لگی۔ یہیں اس کی ملاقات کارمین زایاس بازان سے ہوئی۔ جو کیوبا کے ایک جلاوطن، متمول باشندے کی بیٹی تھی۔ اس ملاقات کے کچھ عرصے بعد دونوں کی شادی ہوگئی۔

اگلے سال 1878میں کیوبا کی اسپینی حکومت نے تمام مطلوب جلاوطن ’’مجرموں‘‘ کے لئے عام معافی کا اعلان کیا تو وہ اپنی بیوی کے ساتھ واپس ہوانا آگیا۔ جہاں اس کے بیٹے ’جوزے فرانسکو‘ کی ولادت ہوئی۔ یہاں وہ کچھ عرصہ تک ایک لاء آفس میں کام کرتا رہا ۔ تاہم اگلے سال 1979میں اسے پھر گرفتار کرکے اسپین بھیج دیا گیا، جب کہ اس کی بیوی اور بیٹا کیوبا میں مقیم رہے۔
1880میں مارتی کسی طرح نیویارک جا پہنچا اور وہاں ایک سال گزارنے کے بعد مستقل قیام کے ارادے سے وینزویلا جا پہنچا۔ لیکن یہ ملک بھی اسے راس نہیں آیا اور اس کی انقلابی سرگرمیوں کی بناء پر وینزویلا کی آمر حکومت نے اسے وہاں سے فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ اس طرح اسے دوبارہ نیویارک کا رخ کرنا پڑا۔ اگلے چودہ سال اسے نے امریکا ہی میں گزارے۔ اس کا زیادہ وقت ’’کی ویسٹ‘‘ کے علاقے میں گزرا، جہاں کیوبا کے جلاوطن باشندے کثیر تعداد میں آباد تھے لیکن وہ کئی گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، جوزے مارتی نے انہیں یک جا اور متحد کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور اس مقصد میں کامیاب رہا۔ اس کا اصل مقصد ایک ایسی انقلابی پارٹی کی تشکیل تھا۔ جس کے زیر قیادت کیوبا میں اسپینی حکم رانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا جاسکتا تھا ۔ اس سے پہلے وہ کیوبا کے ایک ساہ فام جلاوطن باشندے’ رافیل سیرا‘ کی معاونت سے La Liga کے نام سے ایجوکیشنل سینٹر بھی قائم کرچکا تھا۔ جس نے اس کی انقلابی تحریک کے لئے ہر اول قوت کا کردار ادا کیا، اس دوران وہ مختلف اخبارات کے لئے کام کرتا رہا اور وینزویلا، ارجنٹینا اور میکسیکو کے بعض اخبارات کے نمائندے کی حیثیت سے ان کے لئے مضامین اور رپورٹیں بھی روانہ کرتا رہا۔ اسپینی استعمار سے کیوبا کی آزادی کے حق میں اور کیوبا میں امریکی عزائم کے خلاف اس کے تندوتیز مضامین تواتر سے سامنے آتے رہے۔ ایک بار اس نے کہا:

’’میں اس عفریت (امریکہ) کے اندر رہ چُکا ہوں اور اس کی آنتوں کے پھیلاؤ سے واقف ہوں‘‘۔

وہ ریاست ہائے متحدہ کو ’’اینگلو سیکسن امریکہ‘‘ قرار دیتا تھا۔ جس کی توسیع پسندی سے پورے لاطینی امریکہ کو خطرہ لاحق تھا اور وہ ان امریکی لیڈروں پر بھر پور حملے کرتا تھا، جو اسپین کو بے دخل کرکے کیوبا کو اپنی عمل داری میں لانے کی وکالت کرتے تھے۔

جوزے مارتی نے امریکہ میں یوروگوئے، پیراگوئے اور ارجنٹائن کے مشترکہ قونصل کی حیثیت سے فرائض بھی انجام دیئے اور امریکہ میں مقیم کیوبا کے جلاوطن شہریوں کے گروہوں کو منظم اور متحد بھی کیا۔ اس کے مضامین اور اس کی نظموں کی آگ پہلے ہی پورے لاطینی امریکا کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی تھی اور اس کے پُرستاروں کا دائرہ تیزی سے پھیلتا جارہا تھا۔ جنوری 1892میں اس نے کیوبا کو آزاد کرانے کے لئے ’’ کیوبن انقلابی پارٹی‘‘ Cubano Partido Revolucionario کی بنیاد ڈالی جو دیکھتے ہی دیکھتے کیوبا کے حریت پسندوں کی مقبول ترین پارٹی بن گئی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے La Patria کے نام سے ایک اخبار بھی جاری کیا جس کا نصب العین کیوبا کی آزادی کا حصول تھا۔1894 میں جنگ آزادی کا آغاز کرنے کے لئے کیوبا کی طرف روانہ ہوا لیکن راستے ہی میں ’فلوریڈا‘ کے مقام پر اسے پکڑ کر واپس بھیج دیا گیا۔ 25مارچ1895کو جوزے مارتی نے ’’مونٹے کرسٹوکا منشور‘‘ شائع کیا جو اس نے ایک اور کیوبن دانشورمیکسیمو گومیز کے ساتھ مل کر تحریر کیا تھا۔ یہ دراصل جنگ آزادی کا اعلان نامہ تھا جس نے اسپینی نوآبادیاتی حکم رانوں پر لرزہ طاری کردیا۔ اس دوران وہ اس کے ساتھ امریکہ مقیم کیوبا کے جلاوطن شہریوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ تشکیل دینے میں مصروف رہے جس کا نصب العین جنگ آزادی کا آغاز کرنا تھا۔

11اپریل1895کو مارتی اس چھوٹے فوجی دستے کے ساتھ کیوبا کے ساحل پر اُترا۔ وہ ایک بیالیس سالہ دبلا پتلا دانشور تھا اور اسے باقاعدہ جنگ یا گوریلا جنگ لڑنے کا ذرا بھی تجربہ نہیں تھا۔ البتہ وہ سچے جذبوں کی لافانی طاقت سے مالا مال تھا۔ ایک بار اس نے کہا:

’’صاحب عمل لوگ اور ان سے بھی زیادہ وہ لوگ جو محبت کے سائے میں چلتے ہیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور جولوگ محض کھوکھلی باتیں کرتے ہیں ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں‘‘۔

جزلسیمو (Maximo Gomez Baez)بھی جوزے مارتی کے ساتھ تھا۔ جو اس ’’فوج‘‘ کا سربراہ تھا۔ مئی کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے میجر جنرل (Antomio Grajale)سے ملاقات کی جیس (Gomez Baez) کا نائب مقرر کیا گیا۔ خود جوزے مارتی کو بھی میجر جنرل کا عہدہ دیا گیا۔ اس دستے نے پہاڑوں کا رُخ کیا۔ جہاں ’’انقلابی فوج‘‘ کے مقامی دستے پہلے سے موجود تھے۔

19مئی 1895کو اسپینی فوج کے خلاف Dos Rosکی لڑائی میں جوزے مارتی لڑتا ہوا مارا گیا۔ دراصل یہ یک طرفہ لڑائی تھی اور اس میں باغیوں کے جیتنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔

Gomezنے جو باغی دستے کی قیادت کررہا تھا جب یہ دیکھا کہ اسپینی فوج پام کے گھنے جُھنڈ کے درمیان مضبوط مرچہ بنائے ہوئے ہے تو وہ سمجھ گیا کہ اس پر حملہ کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا چنانچہ اس نے حکم جاری کیا کہ اس کے ساتھ پس ہوکر ادر اُدھر منتشر ہوجائیں اس وقت مارتی اپنے گھوڑے پر سوار تیزی سے اگے کی طرف بڑھ رہا تھا اس نے اِدھر اُدھر دیکھا اسے اپنے پاس صرف ایک نوجوان شہ سوار دیکھائی دیا اس نے اسے مخاطب کرتے ہوئے چلاکر کہا:
نوجوان (دشمن پر) ٹوٹ پڑو!

یہ دوپہر کا وقت تھا۔ مارتی ہمیشہ کی طرح سیاہ جیکٹ پہنے ہوئے تھا اور اس کا گھوڑا سفید رنگ کا تھا۔ اس لیے وہ اسپینی فوجیوں کو آسانی سے نظر آسکتا تھا چناں چہ انہوں نے پل بھر میں اسے گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس کا حواس باختہ نوجوان ساتھی اپنے گھوڑے سے ہاتھ دھو بیٹھا اور پا پیادہ بھاگتا ہوا یہ خبرسنانے کے لئے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا یا کہ کیوبا کا سب سے نام ور شاعر، ادیب اور آزادی کا متوالا جوزے مارتی وطن کی راہ میں شہید ہوگیا۔

اسپینی فوجیوں نے ایک گڑھا کھود کر مارتی کی لاش قریب ہی دفن کردی۔ پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ کون تھا تو انہوں نے لاش باہر نکال لی۔ اب مارتی کی قبر سانیتا گوڈی کیوبا کے ایک قبرستان میں ہے۔ اس نے اپنے ایک نظم میں لکھا تھا:
وہ مجھے تاریک جگہ پر دفن نہ کریں
جیسے کسی غدار کے ساتھ کیا جاتا ہے
میں ایک صاحب کردار آدمی ہوں
اور ایک صاحب کردار آدمی کی حیثیت سے
یہ چاہتا ہوں کہ جب مروں تو
میرا چہرہ سورچ کی طرف ہو
کیوبا کے علاوہ لاطینی امریکہ کے مختلف شہروں میں جوزے مارتی کے قدِ آدم مجسمے نصب ہیں۔ کیوبا کے دارالحکومت ہوانا کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ’’جوزے مارتی انٹرنیشنل ائیر پورٹ‘‘ کہلاتا ہے اس کی جائے ولادت لاہبانا کا ہوائی اڈا بھی اس کے نام سے منسوب ہے۔ اس کے علاوہ اس کے نام سے ایک شہر ’’مارتی‘‘ بھی ہے۔ کیوبا کے مختلف شہروں میں سڑکوں کے نام اس سے منسوب کیے گئے ہیں۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر Ybarمیں ’’جوزے مارتی پارک‘‘ میں اس کا ایک قد آدم مجسمہ ایفروکیوبن محب وطن Paulina Peosoraکی رہائش گاہ کے سامنے ایستادہ ہے۔ جہاں کسی زمانے میں مارتی رہا کرتا تھا۔ یہیں ایک بار ایک اسپینی جاسوس نے اسے زہردے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی، جسے اس نے معاف کردیا تھا۔ وہاں سے کچھ فاصلے پر Ybar Cigar Factory, Complexکے سامنے بھی ایک ’’ مارتی پارک‘‘ ہے جہاں اس کا مجسمہ نصب ہے۔ یہاں مارتی نے سگار فیکٹری کے مزدوروں کو اسپین کی غلامی کے خلاف لڑنے کا درس دیا تھا۔ فلوریڈا ہی میں Key Westکے مقام پر اس کی یاد میں ایک میموریل ہاؤس موجود ہے جس کے باہر اس کا مجسمہ رکھا ہوا۔
جوزے مارتی نے ایک جگہ لکھا تھا:

’’یہ شرف آدمیت نہیں کہ آدمی بے حسی کے ساتھ لوگوں کو غلامی اور تذلیل زنجیروں میں جکڑا دیکھتا رہے اور ان کی جہد آزادی کا دُور سے تماشا دیکھتا رہے‘‘۔

جوزے مارتی کی زندگی اس کے اس قوم کا آئینہ تھی۔ اس نے دُور سے تماشا نہیں دیکھا بلکہ زندگی کی آخری سانس تک عملی طور پر اسپینی نو آبادیاتی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرتا رہا اور دوسروں کو بھی اس جنگ میں حصہ لینے کی تحریک دیتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ: جنگ جاری رہے گی۔احفاظ الرحمٰن ۔صفحہ219تا225