امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر، جنرل ایچ آر مک ماسٹر نے منگل کے روز کہا ہے کہ قطر کی طرح ترکی شدت پسند نظریہ پھیلانے کے لیے رقوم کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے۔
منگل کے روز واشنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے، مک ماسٹر نے کہا کہ ’’ہمیں مغربی افریقہ سے جنوب مشرقی ایشیا تک ہر جگہ ترکی ملوث دکھائی دیتا ہے‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’اس وقت بلقان ایسی جگہ بن گیا ہے جو شدید تشویش کا باعث ہے‘‘۔
مک ماسٹر نے بس کھل کر یہ نہیں کہا کہ ترکی اصل دہشت گرد گروپوں کو رقوم فراہم کر رہا ہے۔
برعکس اس کے، اُنھوں نے اس بات پر آواز بلند کی کہ ترکی 1970ء کی دہائی کے سعودی عرب کے نقش قدم پر عمل پیرا ہے؛ اور ماضیِ قریب میں وہ قطر کی طرح اُن گروہوں کو فنڈ فراہم کرتا ہے جو ایسی صورت حال پیدا کرتے ہیں جس سے دہشت گردی کو فروغ کی اجازت ملتی ہے۔
بقول اُن کے، ’’وسیع پیمانے، پر یوں کہیں کہ، ہم نے اس بات پر ضروری دھیان نہیں دیا کہ مدارس، مساجد اور نام نہاد خیراتی ادارے کس طرح انتہا پسند نظریات کو پروان چڑھا رہے ہیں‘‘۔
ترکی کی وزارتِ خارجہ نے بدھ کے روز مک ماسٹرکے بیان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے، اِسے ’’حیران کُن، بے بنیاد اور ناقابلِ قبول‘‘ قرار دیا۔
وزارت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ہمیں توقع ہے کہ امریکہ، جسے ہم اپنا دوست اور اتحادی تسلیم کرتے ہیں، وہ ہمارے ساتھ بھی اُسی جذبے سے پیش آئے، ’وائی پی جی‘ جیسے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ہر قسم کا تعاون ختم کردے، اور ہماری جانب سے دہشت گردی اور قدامت پسندی کے خلاف جنگ میں ہمارے عزم کا ساتھ دے اور ہماری ٹھوس اور مؤثر حمایت کرے‘‘۔
کُرد میلشیا، ’وائی پی جی‘ کے لیے امریکی حمایت کے معاملے پر امریکہ اور ترکی کے تعلقات میں دراڑیں پڑی ہیں؛ جس نے شام میں داعش کے دہشت گرد گروپ کے ساتھ لڑائی میں مدد کی۔
ترکی کا کہنا ہے کہ ’وائی پی جی‘ کا کُردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے تعلق ہے، جو ترکی کے اندر کُرد سرکشی پر جُتی ہوئی ہے۔ ترکی کے ہمراہ، یورپی یونین اور امریکہ نے ’پی کے کے‘ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
جولائی 2016ء میں ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد، امریکہ اور ترکی کے تعلقات خراب ہوئے۔ ترکی مسلمان عالم دین، فتح اللہ گولن پر تختہ الٹنے کی کوشش میں ملوث ہونے کا الزام لگاتا ہے۔ گولن، جو پنسلوانیہ کی امریکی ریاست میں خودساختہ جلاوطنی گزار رہے ہیں، اِس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ امریکہ نے اُنھیں ملک بدر کرنے کے مطالبات کو ماننے سے انکار کیا ہے۔