چمن شہر کے بوغرہ روڈ پر عیسائی برادری کی ایک کالونی کے مرکزی دروازے پر نامعلوم شرپسندوں نے دھماکہ خیز مواد نصب کر رکھا تھا، جس میں ’ٹائمر ڈیوائس‘ کے ذریعے جمعے کی رات کو زوردار دھماکہ کیا گیا، جس سے گیٹ کے قریب کھیلنے والے دو بچے شدید زخمی ہوگئے۔
بتایا گیا ہے کہ اُنھیں فوری طور پر چمن کے مقامی اسپتال میں منتقل کر دیا گیا جہاں نو سالہ لکی سلیم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا، جبکہ چار سالہ وی شال ویکرم کو مقامی اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔
ڈاکٹروں نے اُس کی حالت بھی تشویشناک بتائی ہے۔ واقعہ کے بعد پولیس اور فرنٹیر کور بلوچستان کے اعلیٰ حکام موقع پر پہنچ گئے اور علاقے کو گھیرے میں لے کر موقعے سے شواہد جمع کئے اور عینی شاہدین سے معلومات حاصل کیں۔
ضلعی پولیس افسر، نعمت اللہ ترین کے مطابق یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے اور اس میں وہی لوگ ملوث ہو سکتے ہیں جو ملک کے دیگر علاقوں میں سیکورٹی اداروں اور قومی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں۔
’ڈی پی او‘ کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے سلسلے میں فی الحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ تاہم، اس حوالے سے چمن کے قریبی علاقوں میں مشکوک مقامات پر چھاپے مارے جائیں گے اور اس واقعہ میں ملوث عناصر کو جلد گرفتار کرلیا جائیگا۔
اس واقعے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ یا تنظیم کی طرف سے قبول نہیں کی گئی۔ افغان سرحد پر واقع اس سرحدی شہر میں پہلے بھی دھماکے ہوتے رہے ہیں۔ دس جولائی کو ’ڈی پی او‘ چمن، قلعہ عبداللہ، ساجد خان مومند سمیت تین افراد ایک خودکش حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کے بعد جولائی ہی کے آخری ہفتے میں دوسرے دھماکے میں چار افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے؛ جبکہ سکیورٹی فورسز پر بھی اس علاقے میں حملے ہوتے رہے ہیں ان میں سے بیشتر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس سے وابستہ مذہبی تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔
چمن بازار پاک افغان سرحد سے صرف چار یا پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جس کی آبادی تقریباً چار لاکھ کے قریب ہے، جبکہ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بھی اس شہر میں قیام پذیر ہے۔ یہ بلوچستان کا ایک تجارتی شہر ہے جہاں سے نہ صرف افغانستان بلکہ بعض اوقات وسطی ایشاء کے ممالک تاجکستان، اُزبکستان اور دیگر ممالک کو بھی آٹا اور دیگر اشیا فراہم کی جاتی ہیں۔