میڈیابائیکاٹ روش نہ بدلنے تک برقرا رہیگا – بی ایل ایف

302

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا میڈیا بائیکاٹ مہم نہ صرف ہماری قومی آزادی بلکہ انسانی آزادی اور صحافت کی آزادی کاموڑثابت ہورہا ہے اور پوری دنیاکے سامنے یہ عیاں ہوگیا ہے کہ بلوچستان میں آزادمیڈیانام کی کوئی شئے موجود ہی نہیں ہے ۔ نام نہاد آزادمیڈیا محض پاکستانی بیانیہ کی تشہیر کا ایک ذریعہ ہے، اس کے سوا کچھ بھی نہیں ۔اس میڈیا کے لئے پاکستان کے نام نہاد قومی سلامتی اوراپنے مالی مفاد کے سامنے انسان ،انسانیت کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں ۔گزشتہ سترہ سالوں سے جاری بلوچ نسل کشی اوریہاں پاکستان کی جنگی جرائم پرخاموشی نے حق و باطل کے درمیان جاری جنگ میں باطل کا ساجھے دار اور شریک جرم ثابت کردیا ہے ۔ہماری میڈیا بائیکاٹ کوبلوچ قوم کی مکمل حمایت ، اس پر عمل اور دنیا میں پزیرائی نے یہ ثابت کردیاہے کہ ہمارا حق پرمبنی بہترین فیصلہ ہے اورآج پاکستانی میڈیا ہاؤسزاورنام نہاد آزاد صحافت کاپول کھل چکاہے ۔

گہرام بلوچ نے کہا کہ ہمارا حقائق پر مبنی طویل بائیکاٹ پرپاکستانی ریاست اورمیڈیا ہاؤسزکی بے حسی اس امر کا اعتراف ہے کہ بلوچ قوم کے خلاف ریاست اور میڈیا ایک ہی صفحے پر ہیں ۔ میڈیا نے اپنے طرزعمل اورایک فریق کے موقف کی تشہیر اور حقائق کی پردہ پوشی کرکے مکمل طورپر قابض کا ساتھ دیاہے ،حالانکہ ہمارے مقاصد میں میڈیا کو دباؤمیں لانے ،صحافیوں کے لئے مشکلات پید اکرنایا میڈیا ہاؤسز کواپنی پالیسی تشہیر کا پابند بنا نا نہیں بلکہ میڈیاکی مکمل آزادی اور خود مختاری ہے ۔ہمار ا مقصد بلوچستان کی اصل صورت حال دنیاکے سامنے لاناہے جس کا ایک اہم ذریعہ میڈیا ہے۔ اگر میڈیا کسی حد تک اپنی بنیادی فریضہ ہی نبھاتا تو آج بلوچستان میں صورت حال مختلف ہوتی ۔ پاکستانی ریاست کی بلوچ وطن میں تباہ کاریوں پرعالمی برادری کی خاموشی کاایک ذمہ دار پاکستانی میڈیا ہاؤسز کا یک طرفہ رپورٹنگ،ریاستی موقف کی تشہیراور حقائق کو توڑ مروڑکر پیش کرنا ہے ۔اس سے شہہ پاکر قابض اپنی مظالم میں اضافہ ہی کرتا چلاگیاجس سے آج بلوچستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے چکاہے ہے ۔

اس حوالے سے مزید بات چیت کرتے ہوئے گہرام بلوچ نے کہا صحافتی اداروں کو پاکستانی ریاست کے سامنے سرجھکانے اور ظلم کا ساجھے دار بننے کے بجائے میڈیا کی آزادی اور انسانی وقار کی بقا کے جنگ میں ہمارا ساتھ دے کر بین الاقوامی اداروں کے سامنے پاکستانی مظالم اور صحافت پر قدغنوں کا مقدمہ رکھنا چاہئے۔ اگر میڈیا ہاؤسز نے اس طرح زردصحافت برقرار رکھ کر ظالم کا ساتھی بنا رہا تو تاریخ کے کٹہرے میں پاکستان کے دوسرے اداروں کے ساتھ میڈیا بھی کھڑا ہوجائے گا اوربلوچ قومی مجرم قرار پائے گا۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ ہماری میڈیا بائیکاٹ کے بعد پاکستانی مظالم میں پہلے کی طرح نئی اضافے سامنے آرہے ہیں ۔پاکستانی میڈیا اپنی بلیک آؤٹ روش پر قائم ہے لیکن عالمی نشریاتی اداروں کی خاموشی اور اس جنگ زدہ علاقے میں اپنے نمائندے نہ بھیجنے کے عمل نے بلوچ قوم کو انتہائی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اس وقت بی بی سی کے علاوہ تمام میڈیا ہاؤسز بلوچستان کی صورت حال پر لب کشائی سے قاصر ہیں مگر بلوچستان کی وسیع و عریض سرزمین پر بی بی سی کا صرف ایک نمائندہ متعین ہے۔ ہماری بی بی سی سے اپیل ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنے نمائندوں کی تعداد بڑھا کر بلوچستان کی صورتحال کو دنیا کے سامنے لائیں۔ گوکہ آج پاکستانی میڈیا ہی میں میڈیا ہاؤسز اور صحافت پر قدغنوں کے حوالے سے متعلق زیر لب یہ اعتراف کیا جا رہا ہے کہ ریاست انہیں بلوچ آزادی پسندو ں سمیت بلوچستان بھرسے قومی تحریک اور بلوچ نسل کشی بارے کسی قسم کی خبر چھاپنے کی اجازت نہیں دیتی ہے اور انہیں صرف ریاستی بیانیہ کی تشہیر کا پابند بنایاگیاہے ۔بی ایل ایف نے میڈیا کا بائیکاٹ کرکے صحافیوں کے تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی کیلئے قابض ریاست پر دباؤ ڈالا مگر دشمن نے تہیہ کر رکھا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی جبر کو لوگوں کے سامنے آنے نہیں دیا جائے گا۔ ایک مہینے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود میڈیا مالکان اور ریاست بے حسی مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان کی صورتحال کو خبروں سے غائب رکھنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم آج بھی اپنی مقصد پر قائم ہیں تاکہ صحافیوں کو آزادی حاصل ہواور بلوچستان کی حقیقی صورتحال بیان ہو۔

گہرام بلوچ نے کہا کہ پورے بلوچستان میں میڈیابائیکاٹ جاری ہے اوریہ اس وقت تک جاری ہے گا جب تک آزاد صحافت پر پابندی عائد ہے اور میڈیا ہاؤسز پاکستانی بیانیے کی تشہیر اور بلوچ بارے تعصب برقرار رکھیں گے ۔ کوئٹہ اور قلات اور ان کے قرب و جوار میں کچھ دنوں سے ہمارے کال کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جوکہ نا قابل برداشت ہے۔ مزکورہ علاقوں میں میڈیا سے متعلق ذمہ داران میں کسی کو نقصان پہنچا تواپنا ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ بلوچستان ایک مقبوضہ ملک ہے اوراس میں پاکستان کے کالے قوانین اوربلوچ نسل کشی میں معاون احکامات پر عمل کرنے والوں کو غداری کی سزا دی جائے گی۔ اس بائیکاٹ سے ہمیں عوامی مشکلات کا احساس ہے لیکن بلوچ عوام کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج ایک قصائی کی طرح بلوچوں کو قتل کرکے شہید کر رہاہے،بلوچستان ایک مذبحہ خانہ بن چکاہے ۔ اس المیے کودنیا کی نظروں میں لانا ان عوامی مشکلات سے زیادہ اہم ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے اور دنیا میں میڈیا اور ر اظہار رائے کی آزادی ہے ۔ہم بلوچستان میں نہ صرف مقامی صحافیوں کی آزادی پریقین رکھتے ہیں بلکہ بیرونی صحافیوں کیلئے راہیں کھولیں گے تاکہ میڈیا کا اصل شکل و روح بحال ہو۔ہم بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو دعوت دیتے ہیں کہ بلوچستان میں اصل صورت حال کا جائزہ لینے آجائیں انہیں پاکستانی فوج اور دوسرے ریاستی اداروں کے علاوہ کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔ہم نے اس سے قبل بھی بیرونی صحافیو ں کی تحفظ کی ہے اور اب بھی کریں گے ۔صحافیوں کا ایک اہم کردار ہے۔ اُن کو چاہیے کہ وہ اپنی قلم اورکیمرے کی آنکھ کے ذریعے دنیا کو آگاہ کریں تاکہ یہاں انسانی اقدار کا تحفظ ممکن ہو، بلوچ نسل کشی سے دنیا آگاہ ہواور پاکستان کے مظالم اور جنگی جرائم پر اسے جوابدہ بنایا جاسکے ۔

گہرام بلوچ نے مزیدکہا کہ چالیس ہزارسے زائد بلوچ پاکستانی اَذیت خانوں میں انسانیت سوز تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ بلوچستان پر پانچویں فوجی آپریشن کے دوران سترہ سالوں میں کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے گئے ہیں۔پانچ لاکھ افراد بے گھر ہوکر اندرون بلوچستان سندھ اورافغانستان میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان میں آئی ایس آئی ان پناہ گزینوں پر کئی حملے کروا چکا ہے۔ سندھ سے کئی افراد اُٹھا کرلاپتہ کئے جا چکے ہیں۔ گزشتہ سال کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اعلان کیا کہ پاکستانی فورسز نے تیرہ ہزار سے زائد بلوچوں کو گرفتار کیا ہے۔ اس کے بعد سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت مزید نو ہزار افراد کو بلوچستان سے گرفتار کرنے کا دعوی کیا۔ یہ تعداد ڈیڑھ سال کی ہے کہ ڈاکٹر مالک کی کٹھ پتلی حکومت آتے ہی آپریشن میں تیزی لائی گئی ۔ مگر میڈیا نے اس پر پردہ ڈال کر پاکستان کو استثنیٰ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسے حالات میں کنٹرولڈ میڈیا کا بائیکاٹ بلوچ عوام کا حق اور فرض بھی ہے۔