یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس سرجن نے لڑکی کو ذہنی مر یضہ قرار دےکر فائل بند کر دیا جبکہ والدین کا کہنا ہے کہ لڑکی کی مو ت زہر کھلانے سے ہوئی ہے ۔
ذرائع کے مطابق دو روز پہلے سر دار بہادر خان یونیورسٹی میں بی ایس سی آنرز کرنے والی ایک لڑکی (ن) کی حالت یونیورسٹی میں کو ئی چیز کھانے کے بعد خراب ہوگئی ،لڑکی نے فوری طور اپنے گھر والوں فون کر کے اسپتال لے جانے کے لئے کہا جس پر لڑکی کے والد یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچ گئے اور وہاں موجود اہلکاروں سے اندر جانے اور بیٹی کو اسپتال لے جانے کی بار بار استدعا کی لیکن عام لوگوں (وی ائی پیز نہیں) کے لئے وضع کئے گئے قواعد آڑے آگئے اور والدکو انتظامیہ نے اندر آنے کی اجازت نہیں دی لڑکی اندر تڑپ رہی تھی لیکن عام آدمی کی بیٹی ہونے کے باعث انتظامیہ کو کو ئی رحم نہیں آیا دو گھنٹے سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد لڑکی کو مکمل بے ہوشی کی حالت میں اسپتال پہنچایا گیا لیکن لڑکی جانبر نہ ہو سکی ۔
ذرائع کے مطابق لڑکی کی ہلاکت کی ایف آر یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف درج کر نے بجائے پولیس کے ذریعے والدین پر دباﺅ ڈالا گیا کہ ایک تحر یری بیان میں یہ تسلیم کیا جائے کہ مذکورہ لڑکی ذہنی مر یضہ تھی اور مرگی کے دوروں سے بچنے کےلئے گولیاں بھی استعمال کر تی تھیں۔
اس واقعہ پر انتظامیہ اور پولیس نے ملکر ایسا پردہ ڈال دیا کہ کسی کو کانوں کان خبرہوئی اورنہ ہی اس کی تحقیقات کی گئیں ،
ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ انتظامی سربراہ کی حتیٰ الوسع کو شش ہوتی ہے کہ یونیورسٹی کے چانسلر اور اس بلوچستان کی ایک اہم شخصیت کو کس طرح خو شحال رکھا جائے، نہ صرف اسی یونیورسٹی بلکہ دیگر یونیورسٹیوں میں موجودہ حکومت کے دور میں کی جانے والی تقرریوں میں اکثریت کا تعلق ایک ہی قبیلے اور بلوچستان کی ایک شخصیت کے عزیز واقارب ہیں۔
کو ئٹہ شہر کے سماجی اور سیاسی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ واقعہ کی فوری تحقیقات کی جائیں اور حقیقی صورتحال سے صوبے کے عوام کو آگاہ کیا جائے ۔
یونیورسٹی میں طالبات کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں میں سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے مسلم باغ میں ایک طالبہ نے ایک سیاسی پارٹی کے صوبائی صدر کی قریبی رشتہ دار کی طرف سے ذاتی عداوات کی بنیاد رپر امتحانی فارم نہ بھیجنے پر لڑکی کو خودکشی کر نی پڑی جس کے خلاف ہرسطح پر آواز بھی اُٹھائی گئی مگر سیاسی اثر ورسوخ کی بنیاد پر کالج کی انتظامیہ کے خلاف کو ئی خاص کاروائی نہیں کی گئی ۔۔۔۔۔۔۔