بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی طرف سے تنظیم کے انفارمیشن سیکرٹری نواز عطا بلوچ سمیت 8کمسن نوجوانوں اور کوئٹہ سے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی بیوی سمیت چار خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی کے خلاف کراچی میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ احتجاجی ریلی آرٹس کونسل کراچی سے شروع ہوکر کراچی پریس کلب کے سامنے اختتام کو پہنچی۔ شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر مغویان کے تصاویر اور نعرے درج تھے۔ ریلی میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرپرسن اسد بٹ، سول سوسائٹی کارکن جبران ناصر، ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نغمہ شیخ، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے فاطمہ زیدی، بلوچ رائٹس کونسل عبدلوہاب بلوچ سمیت سینکڑوں خواتین ، نوجوان و بچوں نے شرکت کی۔
شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بی ایچ آر او کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات تھمنے کے بجائے شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے نوجوانوں کی گمشدگی کا سلسلہ جاری ہے لیکن اب خواتین اور کمسن بچے بھی اس پالیسی سے محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ بلوچستان کی شورش کو طاقت کا استعمال ختم کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا چکی ہے۔ ہزاروں لوگ لاپتہ اور ہزاروں کی روزگار کے ذرائع چھن چکے ہیں، ہزاروں خاندان نکل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں، لیکن اغواء کے واقعات کا شدت کے ساتھ رونماہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ریاستی ادارے اس پالیسی کو ختم کرنے بجائے اس میں شدت لارہے ہیں۔ 28اکتوبر کو کراچی سے اغواء کیے جانے والوں میں سے بی ایچ آر او کے انفارمیشن سیکرٹری نواز عطاء بلوچ آٹھ دیگر کمسن نوجوان شامل ہیں۔ ان نوجوانوں کی عمریں آٹھ سے پچیس سال کے درمیان ہیں جو کہ یہاں کراچی میں پڑھنے کی غرض سے موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی جبری گمشدگی کی بھی طرح قابلِ جواز نہیں، پاکستان میں عدالتیں موجود ہیں اگر کسی کے خلاف کوئی الزامات ہیں تو مقدمات قائم کرکے انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے، لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے خود ہی ریاست کی قانوں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ بی ایچ آر او کے رہنماؤں نے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ سندھ کی صوبائی حکومت کراچی سے اغواء کیے جانے والے آٹھ نوجوانوں کی گمشدگی پر مکمل خاموش ہے، حالانکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے وزیر اعلیٰ کے دائرہ اختیار میں کام کرتے ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ کی زمہ داری ہے کہ وہ جبراََ گمشدہ کیے گئے نواز عطاء سمیت تمام نوجوانوں کی بازیابی کو ممکن بنانے کے لئے کردار ادا کرے۔ انہوں نے کوئٹہ سے بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ فورسز کے رویے بلوچستان کی صورت حال کو مزید ابتر بنائیں گے۔ یہ آزمودہ حقیقت ہے کہ تشدد کا استعمال کسی مسئلے کو حل کے بجائے مزید پیچیدگی کی طرف لے کے جاتی ہے۔ اگر ریاست کے ادارے بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں سنجیدہ ہیں تو تمام مغویوں کو فوری رہا کرکے جاری فوجی کاروائیوں کو بند کردیں۔ اگر فورسز کا رویہ بلوچوں کے ساتھ یہی رہا تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ مزید ہزاروں لوگ لاپتہ ہوجائیں گے۔ ان گمشدگیوں کے اثرات یقینی طور پر بلوچ سماج پر منفی حوالے سے پڑھیں گے۔ بی ایچ آر او کے رہنماؤں نے کہا کہ عالمی اداروں کو اس سلسلے کو روکنے کے لئے مداخلت کرنی چاہیے کیوں کہ ان کی مداخلت سے ریاست کے ادارے مجبور ہوجائیں گے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روک دیں