دنیا کی سیاسی صورت حال میں خاصی تبدیلی کا رجحان اس وقت شروع ہوا، جب عالمی دنیا میں طاقت ور ممالک کی طرف سے خطے میں وسائل پر قبضہ اور اپنی اثر رسوخ قائم رکھنے کے لئے تبدیلی کے نام پر بہت بڑی جنگ چھیڑی گئی۔ جس سے مشرق وسطیٰ سمیت کئی ممالک متاثر ہوئے۔ شام میں ہونے والے حالیہ چند ملکوں کی کشکمکش اور اپنی اجارہ داری برقراررکھنے کی خاطر اسد حکمران سمیت ایران و روس کی شام پر اپنا تسلط مضبوط کرنا اور بالخصوص طاقت کے توازن کو برابر رکھنے کے لئے ایک طویل دورانیہ پر محیط جنگ کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے یورپی دنیا میں مہاجرین کے بحران نے سر اٹھا کر یورپی قوتوں کو خاصی پریشانی میں مبتلا کیا اور موجودہ صورت حال کی وجہ سے یورپ ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہے کیونکہ مہاجرین کے بحران سے ایک طرف یورپی ہمسایہ اور نیٹو کے رکن ملک ترکی جو کہ ایک فاشسٹ کی شکل اختیار کرچکا ہے یورپی یونین کا ممبر بننے کے لئے یونین پر مہاجرین کے مسئلے کو لیکر Black Mailingکی سیاست پر بضد ہے اور بالخصوص دولت اسلامیہ کے گھاڑے پنجوں اور انفرادی طریقوں سے یورپ میں داخل ہونا بھی سنگین شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔
ان تمام محرکات کی وجہ سے یورپ کی پوزیشن یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہر یورپی ملک کو اپنی انفرادی حیثیت اور قومی تشخص کی فکر لاحق ہوتی جارہی ہے، جس سے یورپی یونین کے تمام پلرز Un Balanceہوتے جارہے ہیں.(اس بات سے قطع نظر کہ یورپ بھی اپنی بقاء کی خاطر قوم پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے) دوسری طرف امریکہ میں آنے والے سخت موقف کے مالک ٹرمپ سلطنت اور حالیہ پیش کی گئی، ان کی پالیسیوں سے یورپی دنیا بہت پریشان دکھائی دے رہا ہے، یقیناً امریکہ کی موجودہ حکمران سیٹ اپ ایشیاء سمیت پورے مشرق وسطیٰ کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ ویسے بھی نا صرف ٹرمپ سلطنت خطے میں پیچیدگی کا اصل سبب بنے گا، بلکہ خطے میں پائی جانی والی اس کشمکش کا پایا جانا پہلے سے موجود بڑے قوتوں کے مابین پائی جانے والی سرد جنگ کا حصہ ہے، جس کا لب لباب ہر کسی کو اپنی تشخص اور ساکھ کو برقرار رکھنے کی طرف لے جارہا ہے اور ان تمام محرکات کا ہونا ایشیاء میں ابھرتی سامراجی قوت چین اور روس کے عزائم سے یورپ اور امریکہ پریشان ہیں۔
جب ہم اپنے معاشرے پر نظریں دوڑانے کی کوشش کرتے ہیں تو من حیث القوم ہمیں اس موجودہ صورت حال کے تناظر میں اپنی شناخت اور وجود کے مٹنے کا خدشہ ایک طویل پریشانی میں مبتلا کررہا ہے، کیونکہ ایک طرف ہم بہ حیثیت قوم بہ حیثیت سرزمین خطے کے اس اہم پہلو پر واقع ہیں، جسے مستقبل قریب میں عالمی سامراج کے مابین اڑتی تلاطم کے سخت لہروں میں ازیت ناک رویے کا سامنا کرنا ہوگا اور اس خطرناک لہروں کا مرکز یقینا ساحل بلوچستان پر ہی ہوگا۔ جس کی اہمیت پر چائینا، روس، کینڈا، ایران، ہندوستان، افغانستان اور بالخصوص امریکہ کی نظریں جمی ہوئی ہیں اور سب سے اہم بات بلوچ قوم اس خطے میں اپنی قومی شناخت اور آزادی کی جنگ میں بےسر و سامانی کے حالت میں مصروف تو ہے لیکن دنیا کی نئی صف بندیوں سے نا آشناء، خطوں کے درمیان بنی جانے والی نئی پالیسیاں، پرانے دشمنوں کا صلح کی جانب بڑھنا اور بالخصوص پاکستان کی نئی پالیسیوں کے تناظر میں پائے جانے والی پاکستان کی پہچان پر دنیا کی قائم ہونے والی مثبت رائے سے بالکل بے خبر دکھائی دیتی ہے، جو یقیناً بلوچ قومی تحریک کے لئے کسی صورت فائدہ مند نہیں ہے.(یہ امرکسی صورت مسترد نہیں کی جاسکتی کہ آپسی تعلقات اور آپسی مفادات کے پیش نظر انسانیت کے سرتاجوں نے کتالونیا اور عراقی کردستان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ) بلوچ قوم کی منتشر ہوتی سیاسی قوت مزاحمتی حوالے ٹھوس زرائع کا نہ ہونا، موجودہ سیاسی کارکنان اور جہد میں مصروف جہدکاروں کے لئے روز بہ روز تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے کیونکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی حکمت عملیوں کو ترتیب دینے میں ہمارے سیاسی کیڈرز ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
بلوچ قوم کی ستر سالہ پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف مشرقی بلوچستان میں جاری شورش اور تحریک کے نشیب و فراز اپنی جگہ لیکن موجودہ دور میں بلوچ کی بقاء اور شناخت سمیت اپنی سرزمین پر اقلیت جیسے امراض میں مبتلا ہونے کی مستقبل قریب کے روش سے ظاہر ہوتی آثار پاک چائینہ اکنامک کوریڈور تک آکر رک جاتی ہے، کیونکہ یہ وہ عمل ہے اگر دو قوتوں کی اشتراکیت سے بننے والی اس Projectکو پایا تکمیل تک پہنچایا گیا، توبلوچ کی تباہی یقینی امر ہے کیونکہ بلوچ اس خطے میں پیدا ہونے والی پیچیدگی سے اس جنگ کے دوران اپنا پوزیشن برقرار نہیں رکھ پائے گا، جس سے انہیں پاؤں تلے روندنا یقینی امر ہے، کیونکہ یہ جنگ نہ صرف چند ممالک کے درمیان اقتصادیات کو بیلنس رکھنے کی خاطر لڑی جائے گی بلکہ پاکستان اپنی پرانی روش اور اپنے لے پالک قوتیں، جو مذہبی شدت پسندی کے شہنشاہ ہیں ان کی اثررسوخ کو بلوچ سرزمین میں پھیلا کر بلوچ قومی تحریک کو نا ختم ہونے والی پریشانی میں مبتلا کرکے انہیں ایک کونے پر مصروف کرسکتا ہے کیونکہ بلوچ قومی تحریک کو بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا ہے جس سے ہم ایک تو روز بہ روز اپنے سماج میں اپنے لوگوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کی طرف سے بلوچ کی شکل میں Parlimentariansکی صورت میں اپنی مسلط کی ہوئی پالیسیوں کو بلوچ سماج میں مستند کرنے کی کوشش کررہا ہے، اور دوسری طرف بلوچ سیاسی قوت کے لئے مستقبل قریب میں چائینا کی گوادر میں اثر رسوخ اور ان کی بڑھتی فوجی قوت کو یہاں لاکر مستقل کرنا بہت بڑے چیلنجز کا سبب بن سکتا ہے۔ جس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ہوسکتا ہے اس ضمن میں دنیا کی باقی قوتیں اپنے مفادات کے عوض ان قوتوں کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی تحت پالیسیاں مرتب دیں، جو کسی صورت بلوچ قومی تحریک کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوسکتے اور یہ بھی ہوسکتا ہے، جس طرح آج روس پاکستان کی طرف نرم گوشہ اختیار کرکے پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے ہوسکتا ہے دوسری قوتیں گوادر کی اہمیت کے پیش نظرپاک چائینا ساجھے داری کا حصہ بنیں، جس سے ایران اور انڈیا اہم پوزیشن پر ہیں، جن کے بارے میں قیاس کی جارہی ہے۔ کیونکہ یہ مذکورہ قوتیں کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ جس سرزمین پر ایک قومی جنگ لڑی جارہی ہے جہاں کامیاب ہوتی سیاسی حکمت عملیاں زیرو کے برابر ہیں اور دنیا میں قومی جنگ حوالے جن سفارت کاری کی ضرورت ہوتی ہے، وہ نہ ہونے کی برابر ہے بجائے اس قوم کے ساتھ برابری کی بنیاد پر طاقت ور قوتوں کا مقابلہ کیا جائے بلکہ چند محدود مدت کے لئے اس قوم کو اپنا پراکسی بناکر خطے میں پیچیدگی پیدا کیا جائے اور بعد میں مسلط شدہ قوتوں کے ساتھ معاہدات کرکے اپنے عزائم حاصل کی جائیں (اس امر سے قطع نظر کہ انڈیا ایران میں بلوچ سرزمین پر چاہبار بندرگاہ مکمل کرکے اپنی تجارت کررہا ہے)یہ امر اس لئے ممکن ہوتا نظرآرہا ہے کیونکہ چین گوادر کے زریعے جانے والی تجارتی سامان کی حفاظت کے لئے بحری افواج اور جنگی بحری جہازوں کو مستقل بنیادوں پر تعینات کرے گا۔ یہ جہاز پاکستان کی کرپٹ بحری و بری افواج کے ساتھ مل کر اس تجارتی عمل کی حفاظت کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ گوادر کی بندر گاہ پر چین کی آبدوزیں بھی تعینات کی جائیں جب کہ ان جہازوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لئے بری اڈہ بھی بنایا جائے گا، جو یقینا پاک چائینہ کی اشتراکیت پر مشتمل ہوگا۔
اس کے علاوہ چین کے اس خطے میں سامراجی مفادات موجود ہیں، جن کی تحفظ کے لئے وہ بڑے پیمانے پر اپنا فوجی اثر رسوخ بڑھانے کی جانب بڑھ سکتا ہے، بحر ہند کے دوسری جانب چین، افریقہ کے ایک چھوٹے سے ملک جبوتی میں پہلے ہی ایک اڈہ قائم کر رہا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اس اڈے کا مقصد افریقہ میں امن کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے، لیکن چینی عزائم سے یہ واضح طور پر نظرآتا ہے کہ چین دنیا بھر میں اپنی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لئے اس طرح کا کھیل کھیل سکتا ہے لیکن اس اثرورسوخ کا براہِ راست ٹکراؤ امریکہ کے مفادات کے ساتھ بن رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ خطہ کشیدگی کا شکار ہوگا اور اس کشیدگی کا مرکز مقبوضہ بلوچستان ہی ہوگا۔ کیونکہ گوادر بندرگاہ کی اہمیت کے پیش نظر بالخصوص بحر بلوچ کے قریب ہی خلیج فارس میں بحرین کے قریب امریکہ کا بحری بیڑہ موجود ہے، جبکہ اس پورے خطے میں ابھی تک امریکہ کا اثر رسوخ موجود ہے۔ ہندوستان کے مفادات بھی خطرے میں ہیں اور دوسری جانب ہندوستان بھی ایران کے ساتھ مل کر مغربی بلوچستان پر چاہبار کی بندرگاہ پر ایران اور افغانستان کے ساتھ مل کر تعمیر کا کام مکمل کرچکا ہے۔ جس کی امریکہ نے بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔ (بلوچ قیادت کا کسی بھی قوت کا پراکسی بننا، کسی بھی صورت تحریک کے لئے نیک شگون نہیں خواہ وہ ایران ہندوستان یا سعودی عرب کیوں نا ہوں) اگر بلوچ قیادت کے درمیان موجودہ چپقلش جو ظاہر ہوتی دکھائی دے رہے ہیں یا جارہی رہیں، تو مشرقی بلوچستان میں دنیا کی سیاسی و اقتصادی تبدیلیوں کے پیش نظر ہمیں ستر سالہ پاکستانی طوق غلامی کے ساتھ ساتھ چین کی سامراجی غلامی کا طوق بھی قبول کرنا ہوگا۔ بلوچ سیاسی قوت کی مشترکہ پالیسیاں اور یکجہتی ہی چین پاکستان کے ان عزائم کے سامنے رکاوٹ ڈال سکتے ہیں اور دوسری طرف ہندوستان،افغانستان اور امریکہ کے ساتھ اپنی سیاسی تاریخ اور قومی جنگ کو آگے رکھ کر ایک مضبوط قوت کی شکل میں اپنا ایجنڈہ پیش کرنا بلوچ سیاسی قوت کے لئے ناگزیر بن چکا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطے کی اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ بلوچ سیاسی و مزاحمتی قوت کیا پوزیشن اختیار کرے گی آیا ان طاقت ور ریاستوں کا Proxyبن کر پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران ان کے پاؤں تلے مسلنے کے لئے تیار رہے گی یا ان قوتوں کے مابین اپنی حیثیت کو مضبوط پوزیشن دینے کے لئے حکمت عملیاں ترتیب دے گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا.